اسپیکر اوم برلا جب ایوان میں سکون قائم کرنے کے لیے زراعت سے متعلق بلوں پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو اختصار کے ساتھ اپنی بات کرنے کا موقع دے رہے تھے تو اسی دوران نیشنل کانفرنس کے رہنما نے بھی خطاب کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ اسپیکر نے محسوس کیا کہ ایوان کے سینئر قائدین ہنگامہ بند کرنے کے بارے میں اپنی بات رکھیں گے، لہٰذا مسٹر عبد اللہ کو مائک پر بولنے کا موقع دیا گیا۔
مسٹر عبداللہ نے کہا: 'جب تک 5 اگست سے پہلے کی صورتحال بحال نہیں ہوتی، تب تک وہاں امن بحال نہیں ہوسکتا ہے۔'
مسٹر عبد اللہ کچھ اور بھی کہتے لیکن اس دوران ان کا مائک بند ہو گیا اور شور کے درمیان کچھ بھی نہیں سنا گیا۔ مسٹر عبداللہ کا مطلب جموں و کشمیر میں قیام امن کے لئے دفعہ 370 کی بحالی تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے ریاست کو دیئے گئے خصوصی حقوق واپس لے لیا گیا تھا۔ تب وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ اب یہ ریاست بھی ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ریاست بن چکی ہے اور اس کے پاس کوئی اضافی حقوق نہیں ہے۔
دریں اثنا نیشنل کانفرنس کی جانب سے سری نگر میں جاری ایک بیان کے مطابق فاروق عبداللہ نے لوک سبھا میں کہا کہ جموں وکشمیر میں کوئی امن نہیں، میں اس وقت یہاں بات کر رہا ہوں کشمیر میں اس وقت بھی ایک انکاﺅنٹر جاری ہے، اگر 5 اگست 2019 کو لئے گئے غیر جمہوری اور غیر آئینی فیصلوں کو واپس نہیں لیا گیا، تو امن و امان کی صورتحال کو لوٹایا نہیں جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں وکشمیر کے جن افراد کو جیلوں میں قید رکھا گیا ہے اُن کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہئے۔
اس سے قبل فاروق عبداللہ کی قیادت میں پارلیمنٹ کے احاطے میں مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے سامنے دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کی مانگ کو لیکر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاج میں نیشنل کانفرنس کے اراکین پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبرلون، جسٹس (ر) حسنین مسعودی، پی ڈی پی ممبر فیاض احمد میر، نذیر احمد لاوے اور ڈی ایم کے کی رکن پارلیمان کنی موزی کروناندھی نے شرکت کی۔
احتجاج کر رہے اراکین پارلیمان نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا کے رکھے تھے جن پر دفعہ 370 اور 35 اے کی فوری بحالی، 5 اگست 2019 کے فیصلوں کی فوری منسوخی اور 1952 و 1975 کے وعدوں کو پورا کرنے سے متعلق نعرے تحریر کئے گئے تھے۔
فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہم نے بار بار پارلیمنٹ میں دفعہ 370 کی منسوخی اور اس سے جموں و کشمیر میں پید شدہ صورتحال پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے میں نہ صرف پارلیمنٹ کو تحریری خط لکھا گیا بلکہ ہم ذاتی طور پر بھی آنریبل سپیکر صاحب سے ملے اور ان سے جموں وکشمیر پر بحث کرانے کی درخواست کی لیکن حکمران جماعت حزب اختلاف کے مطالبوں کو خاطر میں نہیں لارہی ہے اور اسی لئے ہم آج پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ کے اندر جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بحث ہو اور مرکزی حکومت کے اُن گمراہ کن دعوﺅں کی اصل حقیقت عوام کے سامنے آسکے جو وہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی منسوخی کے بارے میں ملک کے عوام کو باور کرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے تینوں خطوں کے عوام نے مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو مسترد کیا ہے اور عوام آج بھی مرکزی حکومت کے ان فیصلوں پر نالاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو فوری طور پر دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی عمل میں لانی چاہئے اور 1975 اور 1952 میں جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جانا چاہئے۔