جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کے رہنے والے تین نوجوان جن کی شناخت امتیاز احمد ولد شبیر حسین، ابرار احمد خان ولد بھاگہ خان اور ابرار احمد ولد محمد یوسف کے طور پر ہوئی ہے، راجوری سے شوپیان مغل روڈ سے مزدوری کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تاہم 17 جولائی کے بعد وہ اپنے رشتے داروں کے رابطے میں نہیں آئے اور شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کا شوپیان میں 18 جولائی کو ہوئے تصادم میں ہلاک کیا گیا ہے۔
سیلم احمد جو ابرار احمد کے رشتہ دار ہیں، نے فون پر بتایا کہ ابرار احمد رواں برس کی 16 جولائی کو اپنے دو ساتھیوں سمیت شوپیان مزدوری کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ 17 تاریخ کو انہوں نے اپنے گھر فون کر کے بتایا کہ ہم شوپیان پہنچ گئے ہیں اور ہم نے یہاں پر ایک کمرہ بھی لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی سبھی چیزیں اور برتن بھی خرید لی ہیں۔
اس کے بعد انکی گھر والوں کے ساتھ کوئی بات نہیں ہوئی۔ گھر والوں نے کافی بار انہیں فون کیا تاہم انکا نمبر بند آ رہا تھا۔ گھر والوں نے یہ سوچ کر انہیں تلاشلنے کی کوشش نہیں کی کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے شاید ابرار اور اسکے ساتھیوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شوپیان انکاؤنٹر میں تین عسکریت پسند ہلاک
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ تینوں نوجوان آپس میں رشتہ دار ہیں اور انکے گھر والے ڈاک علاقہ جہاں صرف جنگلات ہیں، میں رہتے ہیں، اور وہاں پر موبائل نیٹ ورک نہیں ہے جسکی وجہ سے گھر والے ان سے اتنے دن گزر جانے کے باوجود رابطہ نہ کر سکے۔
ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک فوٹو وائرل ہوئی ہے جسمیں آمشی پورہ میں ہلاک ہوئے تین عسکریت پسندوں میں سے دو کا چہرہ صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے، جو راجوری کا رہنے والے وہی نوجوان ہیں جو اپنے ساتھیوں سمیت شوپیان مزدوری کے لیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: راجوری کے تین نوجوان شوپیان میں مبینہ طور پر لاپتہ
اس حوالے سے ان نوجوانوں کے اہل خانہ نے راجوری میں قائم پولیس چوکی پر جاکر شوپیان جانے کی اجازت مانگی تاہم ابھی تک انہیں شوپیان جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
گھر والوں، سوشل میڈیا اور فوج کی طرف سے دئے گئے تازہ بیان کے مطابق لوگوں میں خدشہ ہے کہ آمشی پورہ شوپیان میں 18 جولائی کو جو انکاؤنٹر ہوا تھا وہ فرضی تھا اور فوج نے جو دعویٰ کیا تھا کہ یہ تینوں عدم شناخت عسکریت پسند ہیں، اصل میں یہ راجوری کے تین نوجوان ہیں جو شوپیان مزدوری کرنے کے لیے آئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: شوپیان تصادم سوالوں کے گھیرے میں، آرمی نے جاری کیا بیان
قابل ذکر ہے کہ شوپیاں کے مضافاتی گاؤں چک آمشی پورہ میں فوج نے رواں سال کی 18 تاریخ کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ فوج کی 62 راشٹریہ رائفلز نے شوپیاں ضلع صدر مقام سے تقریباً 11 کلو میٹر دور آمشی پورہ نامی گاؤں میں عسکریت پسندوں کی موجود گی کی اطلاع ملنے کے بعد فوج نے جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات قریب 2 بجے علاقے میں ایک میوہ باغ کو محاصرے میں لیا جسکے بعد تلاشی کاروائیوں کا آغاز کیا اور مقامی میوہ باغ میں ایک پختہ شیڈ کا گھیرا تنگ کیا گیا جہاں پر چھپے بیٹھے عسکریت پسندوں نے فوج پر فائرنگ کی جسکے بعد فورسز اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی اور انکاؤنٹر شروع ہوا جو کچھ گھنٹوں کے بعد اختتام کو پہنچا۔
اس دوران فوج نے میڈیا کو بتایا کہ اس انکاؤنٹر میں تین عدم شناخت عسکریت پسند ہلاک کئے گئے جبکہ دو اندھرے کا فائدہ اٹھاکر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ تاہم پولیس کی طرف سے اس انکاؤنٹر کے بارے میں کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کیا گیا۔ ادھر آج فوج کی جانب سے بھی ایک اور پریس ریلیز جاری کیا گیا جس میں فوج نے بتایا کہ ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر راجوری کے تین مزدوروں کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ان کی اس تصادم کے ساتھ وابستگی کی خبریں پڑھی ہیں اور فوج اس تعلق سے تحقیقات کر رہی ہے۔
واضح رہے نئی پالیسی کے تحت پولیس عسکریت پسندوں کی لاش کی شناخت نہیں کرتی ہے اور کووڈ 19 کی وجہ سے لاش کنبہ کے افراد کو نہیں دی جاتی ہے اور انہیں نامعلوم اور دور دارز علاقوں میں دفن کیا جاتا ہے۔