ETV Bharat / state

شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟

author img

By

Published : Aug 19, 2020, 11:10 PM IST

Updated : Aug 19, 2020, 11:58 PM IST

شوپیان میں گذشتہ دنوں ہونے والے تصادم پر مختلف حلقوں سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت اردو کے مدیر خورشید وانی نے اس تصادم پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیا ہے۔ پیش ہے اس تعلق سے خصوصی رپورٹ

شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟
شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟

جموں و کشمیر میں فوج نے امشی پورہ، شوپیان میں ہوئے ایک تصادم سے متعلق اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری شروع کی ہے۔ 18 جولائی کو ہوئے اس تصادم میں فوج نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن روز اول سے یہ تصادم شکوک و شبہات کے دائرے میں رہا ہے۔

شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟

فوج کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ عسکریت پسند مخالف آپریشنز میں فوج اقدار پر مبنی رویے کی پابند ہے لیکن جن کیسز کے بارے میں شکوک ابھارے جائیں، انکی قانون کے مطابق تحقیقات کی جاتی ہے۔

پہلے دن سے ہی اس مبینہ تصادم کی طرف شک کی سوئی رہی۔ پولیس نے اس بارے میں یہ کہہ کر کوئی بیان جاری نہیں کیا کہ یہ کارروائی خالصتاً فوج کی تھی۔ عام طور پر جب کشمیر میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو پولیس کہتی ہے کہ یہ ایک مشترکہ کارروائی تھی۔ متحدہ کمانڈ ہیڈکوارٹرز کی طرف سے جاری کئے گئے ایس او پیز کا بھی تقاضہ ہے کہ فوج کسی بھی آپریشن کیلئے پولیس اور نیم فوجی دستوں کو ساتھ رکھے۔

لیکن فوج اس بات پر مصر رہی کہ واقعی ایک تصادم ہوا جو رات بھر جاری رہا اور تین دہشت گردوں کی ہلاکت پر ختم ہوا۔ فوج کے ایک افسر بریگیڈیر اجے کٹوچ نے کہا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں اور ضبط کئے گئے ہتھیار پولیس کو سونپ دئے گئے ہیں۔

جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے کشمیر میں حکام نے عسکریت پسندوں کی لاشیں مقامی لوگوں کو فراہم کرنا بند کیا ہے، انہیں کسی گمنام جگہ پر دفن کیا جاتا ہے۔ غیر مقامی عسکریت پسندوں کی لاشیں کئی سال سے گمنام قبرستانوں میں دفن ہورہی ہیں۔

ابتدا میں یہ تاثر دیا گیا کہ مارے گئے نوجوان غیر ملکی ہیں اسلئے انکی تدفین کے بارے میں معلومات بھی مبہم رہیں۔ لیکن لاشوں کی بعض تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد اس تصادم کے بارے میں سوالات سر اٹھانے لگے۔

اگست کے دوسرے ہفتے میں راجوری کے ایک دوردراز علاقے ، کوٹرنکا سے تین نوجوانوں کے لواحقین نے انکی پراسرار گمشدگی رپورٹ کی۔ انکے مطابق یہ تینوں نوجوان 16 جولائی کی صبح مزدوری کی تلاش میں شوپیان کی جانب روانہ ہوئے۔ اگلی شام انہوں نے فون پر گھر والوں کو اطلاع دی کہ انہوں نے کرایے پر کمرہ لے لیا ہے۔

اگلے کئی روز تک ان نوجوانوں کا گھر والوں سے رابطہ نہیں ہوا۔ گھر والے سمجھ بیٹھے کہ لاک ڈاؤن اور مواصلات پر پابندی کی وجہ سے وہ فون نہیں کرپا رہے ہیں لیکن کئی روز تک جب انکی کال نہیں آئی تو انہوں نے رابطے کی کوشش کی لیکن تینوں کے فون سوئچ آف آنے لگے۔

اس دوران امشی پورہ میں مارے گئے نوجوانوں کی لاشوں کی تصاویر کا موازنہ گمشدہ نوجوانوں کے ساتھ کیا جانے لگا۔ ان میں مشابہت ہے اسلئے شک یقین میں بدلنے لگا۔

امتیاز احمد اور ابرار احمد کا تعلق کاتھونی محلہ، درساکری گاؤں سے ہے اور محمد ابرار، ترکاسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ یہ آپس میں رشتہ دار ہیں ۔ ابرار اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے کچھ کمانا چاہتا تھا، دوسرے ابرار کا 17 ماہ کا بیٹا عرفان کہتا ہے کہ اسکا باپ کویت گیا ہے اور وہاں سے اسکے لئے کھلونے لائیگا۔

ان نوجوانوں کے لواحقین کو اس بات کا دکھ ہے کہ فوج نے انہیں عسکریت پسند گردانا ہے حالانکہ انکے خاندان کے افراد فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک رشتہ دار نے کرگل جنگ میں بھی حصہ لیا ہے۔

لواحقین کی جانب سے گمشدگی کی رپورٹ درج ہونے کے بعد پولیس نے تحقیقات شروع کی ہے۔ تیرہ اگست کو شوپیان سے پولیس کی ایک ٹیم راجوری پہنچی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی این اے نمونے حاصل کرکے مارے گئے نوجوانوں کی شناخت کی جائیگی۔

فی الحال تصادم کے بارے میں جو شواہد سامنے آرہے ہیں انکے مطابق ان نوجوانوں کو چوگام سے انکے کرایہ کے کمرے سے فوج کی 62 راشٹریہ رائفلز کے اہلکاروں نے رات کے دوران اٹھالیا تھا۔ انکا کمرہ فوجی کیمپ سے محض چند سو گز کے فاصلے پر تھا۔ اگلے روز مالک مکان نے دیکھا کہ کمرہ اندر سے بند تھا اور پیچھے کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے نوجوانوں کی شناخت نہیں ہوئی لیکن لواحقین کہتے ہیں کہ تینوں کے پاس آدھار کارڈ موجود تھے۔

راشٹریہ رائفلز کی 62 ویں بٹالین کے ہاتھوں فروری 2017 سے کسی عسکریت پسند کی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ چوگام سے دس کلومیٹر دور امشی پورہ میں جہاں یہ تین مبینہ عسکریت پسند مارے گئے، وہاں تصادم کے آثار بھی نظر نہیں آئے۔ میوہ باغ میں موجود جس جھونپڑے کو عسکریت پسندوں کی کمین گاہ بتایا گیا، اس پر گولیوں کے چند ایک نشانات تھے۔ پولیس نے صاف کہا کہ انکے پاس عسکریت پسندوں کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہے اور فوج نے بھی اپنے طور تحقیقات شروع کی ہے۔

فوج نے مقامی اخبارات میں بھی ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں عینی شاہدین سے کہا گیا ہے کہ وہ واقعے کے بارے میں بیانات قلمبند کرائیں۔

شوپیان کا یہ پراسرار تصادم، ماضی میں پانژل تھن اور مژھل میں ہوئی ایسی ہی شہری ہلاکتوں کے مشابہ ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب فوج کی کارروائی پر تحقیقات کی جارہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحقیقات سے کونسی سچائی منظر عام پر آئیگی

جموں و کشمیر میں فوج نے امشی پورہ، شوپیان میں ہوئے ایک تصادم سے متعلق اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری شروع کی ہے۔ 18 جولائی کو ہوئے اس تصادم میں فوج نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن روز اول سے یہ تصادم شکوک و شبہات کے دائرے میں رہا ہے۔

شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟

فوج کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ عسکریت پسند مخالف آپریشنز میں فوج اقدار پر مبنی رویے کی پابند ہے لیکن جن کیسز کے بارے میں شکوک ابھارے جائیں، انکی قانون کے مطابق تحقیقات کی جاتی ہے۔

پہلے دن سے ہی اس مبینہ تصادم کی طرف شک کی سوئی رہی۔ پولیس نے اس بارے میں یہ کہہ کر کوئی بیان جاری نہیں کیا کہ یہ کارروائی خالصتاً فوج کی تھی۔ عام طور پر جب کشمیر میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو پولیس کہتی ہے کہ یہ ایک مشترکہ کارروائی تھی۔ متحدہ کمانڈ ہیڈکوارٹرز کی طرف سے جاری کئے گئے ایس او پیز کا بھی تقاضہ ہے کہ فوج کسی بھی آپریشن کیلئے پولیس اور نیم فوجی دستوں کو ساتھ رکھے۔

لیکن فوج اس بات پر مصر رہی کہ واقعی ایک تصادم ہوا جو رات بھر جاری رہا اور تین دہشت گردوں کی ہلاکت پر ختم ہوا۔ فوج کے ایک افسر بریگیڈیر اجے کٹوچ نے کہا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں اور ضبط کئے گئے ہتھیار پولیس کو سونپ دئے گئے ہیں۔

جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے کشمیر میں حکام نے عسکریت پسندوں کی لاشیں مقامی لوگوں کو فراہم کرنا بند کیا ہے، انہیں کسی گمنام جگہ پر دفن کیا جاتا ہے۔ غیر مقامی عسکریت پسندوں کی لاشیں کئی سال سے گمنام قبرستانوں میں دفن ہورہی ہیں۔

ابتدا میں یہ تاثر دیا گیا کہ مارے گئے نوجوان غیر ملکی ہیں اسلئے انکی تدفین کے بارے میں معلومات بھی مبہم رہیں۔ لیکن لاشوں کی بعض تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد اس تصادم کے بارے میں سوالات سر اٹھانے لگے۔

اگست کے دوسرے ہفتے میں راجوری کے ایک دوردراز علاقے ، کوٹرنکا سے تین نوجوانوں کے لواحقین نے انکی پراسرار گمشدگی رپورٹ کی۔ انکے مطابق یہ تینوں نوجوان 16 جولائی کی صبح مزدوری کی تلاش میں شوپیان کی جانب روانہ ہوئے۔ اگلی شام انہوں نے فون پر گھر والوں کو اطلاع دی کہ انہوں نے کرایے پر کمرہ لے لیا ہے۔

اگلے کئی روز تک ان نوجوانوں کا گھر والوں سے رابطہ نہیں ہوا۔ گھر والے سمجھ بیٹھے کہ لاک ڈاؤن اور مواصلات پر پابندی کی وجہ سے وہ فون نہیں کرپا رہے ہیں لیکن کئی روز تک جب انکی کال نہیں آئی تو انہوں نے رابطے کی کوشش کی لیکن تینوں کے فون سوئچ آف آنے لگے۔

اس دوران امشی پورہ میں مارے گئے نوجوانوں کی لاشوں کی تصاویر کا موازنہ گمشدہ نوجوانوں کے ساتھ کیا جانے لگا۔ ان میں مشابہت ہے اسلئے شک یقین میں بدلنے لگا۔

امتیاز احمد اور ابرار احمد کا تعلق کاتھونی محلہ، درساکری گاؤں سے ہے اور محمد ابرار، ترکاسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ یہ آپس میں رشتہ دار ہیں ۔ ابرار اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے کچھ کمانا چاہتا تھا، دوسرے ابرار کا 17 ماہ کا بیٹا عرفان کہتا ہے کہ اسکا باپ کویت گیا ہے اور وہاں سے اسکے لئے کھلونے لائیگا۔

ان نوجوانوں کے لواحقین کو اس بات کا دکھ ہے کہ فوج نے انہیں عسکریت پسند گردانا ہے حالانکہ انکے خاندان کے افراد فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک رشتہ دار نے کرگل جنگ میں بھی حصہ لیا ہے۔

لواحقین کی جانب سے گمشدگی کی رپورٹ درج ہونے کے بعد پولیس نے تحقیقات شروع کی ہے۔ تیرہ اگست کو شوپیان سے پولیس کی ایک ٹیم راجوری پہنچی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی این اے نمونے حاصل کرکے مارے گئے نوجوانوں کی شناخت کی جائیگی۔

فی الحال تصادم کے بارے میں جو شواہد سامنے آرہے ہیں انکے مطابق ان نوجوانوں کو چوگام سے انکے کرایہ کے کمرے سے فوج کی 62 راشٹریہ رائفلز کے اہلکاروں نے رات کے دوران اٹھالیا تھا۔ انکا کمرہ فوجی کیمپ سے محض چند سو گز کے فاصلے پر تھا۔ اگلے روز مالک مکان نے دیکھا کہ کمرہ اندر سے بند تھا اور پیچھے کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے نوجوانوں کی شناخت نہیں ہوئی لیکن لواحقین کہتے ہیں کہ تینوں کے پاس آدھار کارڈ موجود تھے۔

راشٹریہ رائفلز کی 62 ویں بٹالین کے ہاتھوں فروری 2017 سے کسی عسکریت پسند کی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ چوگام سے دس کلومیٹر دور امشی پورہ میں جہاں یہ تین مبینہ عسکریت پسند مارے گئے، وہاں تصادم کے آثار بھی نظر نہیں آئے۔ میوہ باغ میں موجود جس جھونپڑے کو عسکریت پسندوں کی کمین گاہ بتایا گیا، اس پر گولیوں کے چند ایک نشانات تھے۔ پولیس نے صاف کہا کہ انکے پاس عسکریت پسندوں کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہے اور فوج نے بھی اپنے طور تحقیقات شروع کی ہے۔

فوج نے مقامی اخبارات میں بھی ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں عینی شاہدین سے کہا گیا ہے کہ وہ واقعے کے بارے میں بیانات قلمبند کرائیں۔

شوپیان کا یہ پراسرار تصادم، ماضی میں پانژل تھن اور مژھل میں ہوئی ایسی ہی شہری ہلاکتوں کے مشابہ ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب فوج کی کارروائی پر تحقیقات کی جارہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحقیقات سے کونسی سچائی منظر عام پر آئیگی

Last Updated : Aug 19, 2020, 11:58 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.