لاپتہ افراد کے خاندانوں کو کچھ نہیں پتہ ہے کہ ان کے لخت جگر زندہ ہیں یا پھر موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ اگر زندہ ہیں تو کہاں ہیں اور اگر نہیں تو ان کا مدفن کہاں ہے۔
وادی میں کئی بے نام قبریں دریافت ہوئی ہیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ یہ قبریں لاپتہ افراد کی ہو سکتی ہیں۔
دنیا بھر کے ساتھ ساتھ وادیٔ کشمیر میں بھی ہر سال 30 اگست عالمی گمشدگی دن کے موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی پی سرینگر کی پریس کالونی کے باہر احتجاج کرتی ہے اور اپنے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے۔
اے پی ڈی پی سے وابستہ درجنوں افراد، خاص کر خواتین اس دن کے موقع پر نمودار ہوتی ہیں اور اپنے لخت جگروں کو یاد کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دکھ درد بانٹتی ہیں۔
عالمی گمشدگی دن کے موقع پر جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع کے دو ایسے خاندانوں سے ملائیں گے جن کے لخت جگر لاپتہ ہیں اور انہیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ 29 نومبر 2019 کو ڈمپورہ کیگام شوپیان میں 22 سالہ نصیر احمد وانی لاپتہ ہو گئے، تب سے ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اہل خانہ نے اس کا الزام سیکیورٹی فورسز پر عائد کیا۔ نصیر احمد وانی کی 80 سالہ دادی خدیجہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ '29 نومبر 2019 کی رات قریب 9 بجے وردی پوش اہلکار ہمارے گھر میں گھس گئے۔ فوج نے ہمیں بتایا کہ ہمیں پاس کے ایک گھر کی تلاشی لینی ہے جس کے بعد نصیر احمد وانی، نصیر کے والد محمد حسین وانی اور چچا کو گھر سے باہر نکال کر اپنے ساتھ لے لیا، کچھ ہی دیر بعد فوجی اہلکار نصیر احمد کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے والد اور چچا کو واپس اپنے گھر بھیج دیا۔ صبح ہم گاؤں والوں کے ساتھ فوجی کیمپ کے باہر اپنے بیٹے کو لانے کے لیے گئے تو وہاں سے ہمیں فوجی اہلکاروں نے بھگا دیا۔ اگلے روز ہم پھر سے اسی کیمپ میں گئے تو فوج نے بتایا کہ ہم نے آپ کے بیٹے کو رہا کر دیا ہے۔ بس اس دن سے لے کر آج تک ہمارا بیٹا اپنے گھر واپس نہیں پہنچا'۔
یہ بھی پڑھیں: بیٹے کی یاد میں آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں!
خدیجہ نے بتایا کہ 'ہمیں نہیں پتہ کہ ہمارے بیٹے کے ساتھ کیا کِیا گیا۔ ہمارے بیٹے کی جدائی نے ہمیں ٹوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے شوپیان، سرینگر اور شادی مرگ فوجی کیمپ میں گئے جہاں کی فوج نے ہمارے بیٹے کو اٹھایا لیکن کوئی اتاپتہ نہیں چلا۔ ہم نے فوجی اہلکاروں کو یہ بھی بتایا کہ اگر آپ نے اسے مارا ہے تو اس کی لاش ہی ہمیں واپس کرو لیکن وہ یہ کہہ کر منع کر رہے ہیں کہ ہمیں نہیں پتہ کہ آپ کا بیٹا کہاں ہے۔'
نصیر احمد وانی کے والد محمد حسین نے بتایا کہ 'ہمارے بیٹے کو فوجی اہلکاروں نے گھر سے اٹھا لیا جس کے بعد وہ گھر واپس نہیں آیا۔ ہم نے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نہیں ملا، ہم پولیس کے پاس بھی اپنے بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے گئے تھے۔ تاہم انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا'۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتہ نوجوان: 'زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا'
انہوں نے بتایا کہ 'اب ہم جب بھی کہیں پر اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو فوجی اہلکار ہمارے گھر میں آتے ہیں اور ہمارے ساتھ سختی کرتے ہیں'
ادھر 2 اگست 2020 اتوار کی شام دیر گئے مشتبہ عسکریت پسندوں نے شوپیان ضلع کے ریشی پورہ حرمین علاقے میں ایک فوجی اہلکار جس کی شناخت شاکر منظور کے بطور ہوئی ہے کو اس وقت اغوا کر لیا جب وہ گھر سے اپنی گاڑی میں ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ تاہم منظور کی گاڑی ایک نزدیکی علاقے سے جلی ہوئی حالت میں برآمد ہوئی تھی۔
شاکر منظور کے والد منظور احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'میں عسکریت پسندوں کی ہر کسی تنظیم سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اگر انہوں نے میرے بیٹے کو اغوا کر کے مار دیا ہے تو مجھے کسی بھی طرح اطلاع دے تو میں انہیں ڈھونڈ لوں گا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'حکومت کی جانب سے ابھی تک انہیں کوئی مدد نہیں ملی ہے میں حکومت اور پولیس اہکاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ میرے بیٹے کو ڈھونڈنے میں میری مدد کریں مجھے بتائیں کہ آخر میرا بیٹا کہاں ہے'۔