شوپیاں: جموں و کشمیر خاص کر وادی میں سرکاری اراضی خصوصاً کاہچرائی اور روشنی لینڈ سے عوامی قبضہ کو ہٹاکر اراضی کو حکومتی تحویل میں واپس لینے کا سلسلہ گزشتہ کئی روز سے جاری ہے۔ انہدامی کارروائی اور اراضی سے بے دخلی کے دوران انتظامیہ پر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی پردہ پوشی کرنے اور صرف غریبوں سے اراضی واپس لینے کے الزامات کے بیچ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں کئی دکانوں، کمرشل ڈھانچے کو منہدم کیا گیا جو رپورٹس کے مطابق سابق سوشل ویلفیئر وزیر کے نام پر درج ہے۔
انہدامی کارروائی میں شامل اہلکاروں نے شوپیاں قصبہ کے اولڈ بس اسٹینڈ کے نزدیک سابق سوشل ویلفیئر منسٹر غلام حسن خان - جن کا تعلق ضلع شوپیاں سے ہے - کے دو دکانوں سمیت کئی ڈھانچوں کو منہدم کر دیا۔ انہدامی کارروائی میں شامل محکمہ مال کے افسران کے مطابق جس زمین پر تجارتی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا تھا وہ اسٹیڈ لینڈ ہے۔ یاد رہے کہ غلام حسن خان پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے دور اقتدار میں سوشل ویلفیئر منسٹر رہ چکے ہیں تاہم بعد میں 25 نومبر 2020 کو انہوں نے الطاف بخاری کی جموں و کشمیر اپنی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ادھر، محکمہ ریونیو کے ایک افسر نے بتایا کہ اسٹیٹ لینڈ اور کاہچرائ پر سے ناجائز قبضہ کو ہٹانے کا کام ضلع شوپیاں میں پہلے ہی شروع کیا گیا ہے اور سرکاری اراضی کو ناجائز قبضہ سے آزاد کرنے کی مہم مستقبل میں جاری رہے گی۔
واضح رہے کہ دو روز قبل سرینگر کے مضافاتی علاقہ ہمہامہ میں انتظامیہ نے نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری اور سابق وزیر محمد علی ساگر کے رہائشی ڈھانچے کے متصل آفس اور گارڈ روم سمیت دیوار بندی کو منہدم کرکے وہاں ’’اسٹیٹ لینڈ پراپرٹی‘‘ کا بورڈ چسپاں کیا۔ انہدامی کارروائی کو نیشنل کانفرنس نے ’’سیاسی انتقام گیری‘‘ کے ساتھ تعبیر کرکے اس کی سخت مذمت کی تھی تاہم انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ صرف اثر و رسوخ والے افراد کے خلاف ہی ابتدائی مراحل میں کارروائی انجام دی جا رہی ہے۔