جموں و کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے آج کہا کہ شوپیاں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے راجوری کے تین نوجوانوں کی لاشوں کو قانونی لوازمات کی ادائیگی کے بعد لواحقین کے سپرد کیا جائے گا۔
انہوں نے جمعہ کو یہاں پولیس ہیڈکوارٹرس میں منعقدہ ایک تقریب کے حاشئے پر راجوری کے نوجوانوں کی لاشوں کو لواحقین کے سپرد کرنے بارے میں نامہ نگاروں کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ 'قانونی لوازمات کی ادائیگی کا عمل جاری ہے ان کے مکمل ہونے کے بعد لاشوں کو لواحقین کے حوالے کر دیا جائے گا'۔
قبل ازیں کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے 30 ستمبر کو کہا تھا کہ شوپیاں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے راجوری کے تین نواجوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر لواحقین کے حوالے کیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ فوج اور پولیس نے 18 جولائی کو اپنے بیانات میں جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین غیر شناخت جنگجووں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس مبینہ فرضی تصادم کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصاویر دیکھ کر ان کی شناخت اپنے تین 'بے گناہ بیٹوں' کے طور پر کی تھی۔
مہلوک نوجوانوں میں سے 25 سالہ ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے فرضی تصادم میں مارے گئے دیگر دو نوجوانوں کی شناخت اپنی سالی اور اپنے سالے کے لڑکوں بالترتیب 16 سالہ محمد ابرار اور 21 سالہ امتیاز احمد کے طور پر کی تھی۔
محمد یوسف کے مطابق تینوں نوجوانوں کے پاس آدھار کارڈ تھے لیکن فوج نے ان کی شناخت چھپائی جس کے بعد انہیں ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں واقع غیر ملکی جنگجووں کے لئے مخصوص قبرستان میں دفن کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ 'ہمارے دو مطالبات ہیں۔ ایک تو ہمیں بچوں کی لاشیں چاہئیں۔ ہم انہیں یہاں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ملوث فوجیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے دردناک واقعات پیش نہ آئیں'۔