گزشتہ 30 سال سے وادی کشمیر کے ثقافتی ورثے اور یہاں کے علم و ادب پر کام کرنے والی پونے کی سرحد نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے متری گام کو گلوبل بکُ ولیج بنانے کے تعلق سے مرکزی تہذیب و تمدن کی وزارت کو پہلے ہی ایک پروپوزل سونپ دیا ہے جس میں بکُ ولیج کے لئے درکار تمام چیزوں اور اس کے منجملہ خدوخال کا ذکر کیا ہے۔
وہیں یوٹی انتظامیہ کے ساتھ بھی پروپوزل کے بارے میں تفصیلا غور وخوص کیا گیا ہے ، جس میں ڈویزنل اور ضلع انتظامیہ نے کافی دلچسپی دکھا کراس پر بہت جلد کام کرنے کی حامی بھی بھر لی ہے۔
اس گاؤں کو گلوبل بُک ولیج اور علم و ادب کا مرکز بنانے کے حوالے سے مرحوم پیر زادہ غلام احمد مہجور کے پوتے اور مجہور فاونڈیشن کے صدر پیز زادہ ابدال مہجور نے اس اقدام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے نہ صرف یہ گاؤں ادب نوزاوں کا مرکز بنے گا بلکہ جنوبی کشمیر میں سیاحتی مقام کے طور ابھرنے سے یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوں گے
سرحد نامی غیر سرکاری تنظیم کےبانی سنجے نہر نے کہا کہ متری گام اور اس کے ملحقہ گاؤں کو ایک تاریخی اور گلوبل بُک ولیج بنانے کی کافی گنجائش موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک اور بیرون ملک میں بھی کئی ایسی جگہیں ہیں جو بُک ولیج کے طور جانی جاتی ہیں ۔لوگ وہاں تفریح کے ساتھ ساتھ پرانی چیزوں کو دیکھنے کے علاوہ کتابوں کا بھی مشاہد کرتے ہیں ۔
اگرچہ سرکاری نے پہلے ہی مرحوم مجہور کے بنائے ہوئے گھر کو میراث کے طور اپنی تحویل میں لیا ہے۔ جس میں میوزیم کے علاوہ علم و ادب کا شوق وزوق رکھنےوالوں کے لیے ایک لائبریری بنانا زیر غور ہے۔ لیکن اب میتری گام کو ایک بُک ولیج کے طور ترقی دینے سے اس میں ایک نئی جہت ملے گی۔
پیر زادہ غلام احمد مہجور کشمیری شاعری میں ایک نیا انداز متعارف کروانے اور بے دریغ موضوعی دائروں میں وسعت دینے کےلیے کافی مشہور ہیں ۔وہیں ان کی نظموں میں محبت ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،معاشرتی اصلاح اور کشمیریوں کی حالت زار جسے موضوعات زیادہ جھلکتے تھے۔