وادی میں ایک ایسا دور بھی تھا جب لوگ اس فصل کی کاشتکاری کے لیے زبردست تگ و دو اور ہر ممکن کوششیں کیا کرتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ تبدیل ہونے لگا، اب حال یہ ہے کہ اس فصل کی اہمیت دھیرے دھیرے کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس پر موسم کی تبدیلی نے بھی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ نتیجتاً زعفران کے زیر کاشت اراضی میں کافی کمی آنے کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک زمینداروں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
کشمیر میں 80 کی دہائی میں پندرہ ہزار کنال اراضی پر زعفران کی کاشت کی جاتی تھی جو کم ہوتے ہوتے دس ہزار کنال رہ گئی اور اب یہ کاشت محض پانچ ہزار کنال اراضی پر ہی محیط ہے۔
کاشتکاروں کے مطابق ماضی کے عین برعکس اب زمیندار مشکل سے ہی اس کاشتکاری سے کچھ کما پاتے ہیں جس کے باعث لوگ اس زمین پر سیب کے درخت اگانے کے علاوہ اس اراضی کو رہائش کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں جس سے اس زمین کا رقبہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
زعفران کی لگاتار کمی اور بازار میں اس کی اہمیت کے مدنظر حکومت نے سنہ 2010 میں سیفران مشن نام سے ایک نیا منصوبہ متعارف کرایا۔
چار سو کروڑ کی لاگت والے اس منصوبے میں سب سے اہم کام زعفران کی کھیتوں میں سینچائی اور ہر جگہ پانی پہنچانا تھا، لیکن زمینداروں کی شکایت ہے کہ سرکار نے سیفران مشن کے نام پر زمینداروں کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا کیوںکہ سینچائی کی اس مشن کو اتنے برسوں کے بعد بھی مکمل نہیں کیا جاسکا۔
محکمے کے افسران بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سینچائی کرنے میں محکمہ نے کوتاہی برتی ہے، تاہم انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ بہت جلد اس کام کو مکمل کر لیا جائے گا۔
شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر سائینس اینڈ ٹکنالوجی کے وائس چانسلر نذیر احمد کا ماننا ہے کہ سینچائی کا کام مکمل ہوتے ہی زعفران کی پیداوار میں اضافہ ہوجائےگا۔
رواں برس بارش وقت پر برسنے سے گزشتہ کئی برسوں کے مقابلے زیادہ پیداوار ہوئی تھی، لیکن غیر متوقع برفباری کی وجہ سے تقریباً چالیس فیصد قیمتی فصل تباہ ہوگئی۔ زمینداروں کا مطالبہ ہے کہ ان کی فصل کا بیمہ کرایا جانا چاہئے تاکہ انہیں کسی حد تک تحفظ کا احساس ہوسکے۔
واضح رہے کہ کشمیر کی کل 5000 ہیکٹر اراضی پر زعفران کی کاشت کی جاتی ہے۔ اس میں سیفران مشن کے تحت کل 3700 ہیکٹر اراضی کی نشاندہی کی گئی، جبکہ بقیہ اراضی کا سیفران مشن میں اندراج نہیں ہوا۔ تقریباً 22 ہزار خاندان کشمیر میں زعفران کی صنعت پر منحصر ہیں۔