پلوامہ (جموں و کشمیر): خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کو آشیانہ فراہم کرنے کے لیے مرکزی معاونت والی اسکیم پی ایم اے وائی (PMAY) یعنی پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ملک بھر میں اب تک ہزاروں گھر تعمیر کیے جا چکے ہیں تاہم وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں اس اسکیم میں بے ضابطگیوں اور اقربا پروری کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں آری پل تحصیل میں واقع بنگہ ڈار نام کے ایک گاؤں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، وہیں اس گاؤں میں کئی کنبوں کو آج بھی ایک پختہ گھر کی تعمیر کا خواب سونے نہیں دیتا ہے۔
بنگہ ڈار نام کے گاؤں کے کئی افراد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ انتہائی خستہ ہال شیڈوں یا کچے مکانات میں رہائش پذیر ہیں اور پی ایم اے وائی کے تحت ان کو اب تک مکانات فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ متعدد باشندوں نے ای ٹی وی بھارت کو اپنی فریاد سناتے ہوئے کہا کہ وہ ’’مسلسل دس برسوں سے دیہی ترقی محکمہ کے دفتر کے چکر کاٹتے رہے ہیں اور دیگر لوازمات بھی پورے کر چکے ہیں لیکن آج جب مکانات فراہم کرنے کا وقت آگیا تو یہ دیکھ کر ہمارے پاؤں تلے زمین کھسک گئی کہ لسٹ سے ہمارا نام ہی غائب تھا۔‘‘ مقامی باشندوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام سے یہ پوچھے جانے پر کہ ان کا نام فہرست سے کیونکر غائب کر دیا گیا ہے؟ جب کہ سرکاری پروگرامز خصوصاً گرام سبھا وغیرہ کے دوران فہرست میں نام درج ہوتا تھا تو اس پر متعلقہ افسران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
مقامی باشندوں نے الزام عائد کیا کہ دیہی ترقی محکمہ کے ملازمین نے اثر ورسوخ والے افراد کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کا نام فہرست میں رکھا ہے جنہوں نے انکی مٹھی گرم کی ہے جبکہ مستحق اور غریب لوگوں کو محض سبز باغ دکھائے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بنگہ ڈار علاقے کے باشندوں نے بتایا کہ منتخب نمائندگان کی جانب سے مستحق افراد کو کہا جا رہا ہے کہ ’’آپ کا نام لسٹ میں ہے۔ بار بار مکانوں کی تصویر لے کر سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں اور جو منظور نظر یا خاص رشتہ دار یا اثر رسوخ رکھنے والے لوگ تھے انہیں پردھان منتری آواس یوجنا میں اول نمبر رکھا گیا جو کہ غریب عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Poor Family Seeks PAMY House For Years ترال پنگلش کا غریب کنبہ آشیانے سے محروم
بنگہ ڈار علاقے کے باشندوں نے ضلع انتظامیہ و گورنر انتظامیہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں میں تحقیقاتی ٹیم روانہ کرکے تمام ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں مختلف سرکاری اسکیموں کے تحت فراہم کردہ رقومات کو زمینی سطح پر کہاں کہاں خرچ کیا گیا ہے؟ اور کن کن لوگوں کو پردھان منتری آواس یوجنا سکیم کے زمرے میں لایا گیا ہے اور جو لوگ ابھی تک مستفید نہ ہو سکے ہیں ان کو بھی اسکیم کا فائدہ دیا جائے۔ ادھر، ای ٹی وی بھارت نے معاملے کو جب فون پر متعلقہ بی ڈی او، منیر حسین، کی نوٹس میں لایا تو انہوں نے بے ضابطگیوں کو سرے سے خارج قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’قواعد وضوابط پر عمل کرتے ہوئے مستحقین کو گھر فراہم کیے جا رہے ہیں اور اس ضمن میں کئی لوگوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔‘‘