عبدالجبار کے اہل خانہ بہت خوش ہے لیکن انہیں غم اس بات کا ہے کہ اگر ان کے رہتے ہوئے انہیں یہ ایوارڈ دیا جاتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی۔
عبد الجبار نے 1984 کے بھوپال گیس سانحہ کے متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے انصاف کی لڑائی لڑتے رہے ، انہوں نے لوگوں کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے متعدد مظاہرے کیے۔ جبار بھوپال گیس متاثر خواتین انڈسٹری آرگنائزیشن کے کوآرڈینیٹر تھے ۔
اس سانحے کے بعد انہوں نے بہت سے کام کیے جس سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کی بازیابی میں مدد ملی۔ عبد الجبار کا سوابھیمان پلیٹ فارم ابھی بھی بھوپال میں موجود ہے ، جو ان کے گزرنے کے باوجود بھی ان کی راہ پر گامزن ہے ، جو اس وقت عبد الجبار کی بہن چلا رہی ہے۔
گیس متاثرین کے مسیحا کی اہلیہ سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ'مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے یہ اعزاز ہمارے اہل خانہ کو دیا ہے ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ خوشی کے اس لمحے میں ان کے شوہر عبدالجبار ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اس اعزاز کی خوشی دوگنی ہوجاتی۔ سائرہ کے ذہن میں ایک کسک رہتی ہے کہ جبار صاحب نےسماج کے کام کے لیے گھر والوں کو بھی بھوکا رکھا اگر انہیں بہتر علاج ملا ہوتا تو وہ آج بھی دنیا میں یہ اعزاز لینے کے لیے ہوتے۔
عبد الجبار کے بیٹے ساحل نے کہا کہ انہیں اس بات کی بہت خوشی ہے کہ ان کے والد کو یہ اعزاز مل رہاہے اس اعزاز کے اصل حق دار وہی ہے وہ جب تھے تو گھر پر کم ہی رہتے تھے ہمیشہ لوگوں کی مدد کے لیے آگے رہتے تھے،جاتے جاتے انہوں نے زندگی کا مقصد دے دیا ہے آگے ان کی لڑائی لڑنا ہے۔
عبدالجبار کی بیٹی مریم 5 ویں جماعت میں زیر تعلیم ہےاور ٹیچر بننا چاہتی ہے والد کو اعزاز ملنے کی خوشی تو بہت ہے لیکن والد کی یاد بہت ستاتی ہے وہ کہتی ہے کہ کاش پاپا آج ہوتے تو بات ہی کچھ اور ہوتی۔
جبار نے 1984 کے گیس سانحہ میں اپنے والدین اور بھائی کو بھی کھو دیا تھا۔ وہ خود بھی اس سانحے میں مبتلا تھے۔ عبدالجبار ذیابیطس کے مریض تھے۔ گیس کی بھیڑ کے دوران بہت زیادہ سرگرم رہنے کی وجہ سے ان کے پھیپھڑوں میں بھی دشواری ہونے لگی۔ لیکن پھر بھی وہ سماج کے لیے لڑنا نہیں بھولے۔ عبد الجبار 14 نومبر 2019 کو بھوپال کے نجی ہسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔