کرگل ڈیموکریٹک الائنس سے وابستہ قمر علی آخون، اصغر علی کربلائی اور سجاد حسین کرگلی کی جانب سے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’جمہوری طریقہ کار پر عمل نہ کئے جانے کے سبب، صدر ہند کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات اور جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 غیر آئینی ہیں۔‘‘
عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’صدر ہند کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات اور جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 نے خطے کی لیجسلیٹو (Legislative) اور ایگزیکیٹیو (Executive) کو نہ صرف ختم کیا ہے بلکہ باشندگان کے آئینی حقوق کو بھی پامال کیا ہے۔ لوگوں کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ یہاں تماشائی چل رہی ہے اور موجودہ انتظامیہ جوابدہ بھی نہیں ہے۔‘‘
بتا دیں کہ آخون سابق رکن اسمبلی ہیں، کربلائی کرگل کے سینئر لیڈر ہے اور سجاد کرگلی صحافی ہونے کے علاوہ انہوں نے پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لیا ہے۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے فون پر بات کرتے ہوئے سجاد کرگلی کا کہنا ہے کہ ’’کافی عرصے سے ہم اپنے وکلاء کے ساتھ اس حولے سے بات کر رہے تھے۔ پھر گزشتہ روز ہم نے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہاں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ پانچ اگست کا فیصلہ غیر آئینی تھا۔ آپ ایک ریاست کا خصوصی درجہ منسوخ کرتے ہیں، پھر دو مرکزی زیر انتظام خطوں میں تقسیم کرتے ہیں، یہ بالکل صحیح فیصلہ نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ لداخ کا ریاستی درجہ جلد سے جلد بحال کیا جائے۔‘‘
وہیں آخون کے خیالات بھی ان سے مختلف نہیں تھے، اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہم ہمیشہ سے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام لانے کے خلاف تھے۔ لیہہ کی عوام چاہتی تھی تاہم آج وہ بھی پریشان ہیں۔ دیکھیے رکن پارلیمان بھی لیہہ کے ہیں تب بھی وہ پریشان ہیں۔‘‘
آخون نے مزید کہا کہ ’’جموں و کشمیر کے دو رکن پارلیمان نے پہلے ہی پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف عرضی دائر کی ہے۔ اگرچہ عالمی وبا کی وجہ سے ابھی سنوائی ممکن نہیں ہو پائی ہے تاہم ہمیں عدالت پر پورا یقین ہے کہ جلد سماعت ہوگی اور فیصلہ عوام کے مفاد میں ہوگا۔‘‘
مزید پڑھیں؛ Weapons Recovered: ایل او سی کے قریب بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد
اس حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے لیہہ کے دیگر سیاست دانوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی بھی ردِعمل ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئیں۔ اگرچہ عدالت نے نوٹس جاری کیا ہے تاہم سماعت ابھی تک نہیں ہوئی۔
مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دو غیر کشمیریوں نے جموں و کشمیر میں جائداد خریدی: مرکز
پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے آئین 1954 کو کالعدم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ 1954 کے حکمنامے میں واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ بھارت کے کون کون سے قانون جموں و کشمیر میں لاگو نہیں ہونگے۔ وہیں، نئے آرڈر میں واضح کیا گیا کہ اب بھارت کے تمام قوانین جموں و کشمیر میں بھی لاگو ہونگے۔
اگرچہ صدر ہند کے پاس دفعہ 370 میں ترمیم کرنے کے اختیار ہیں تاہم اس کے لیے جموں و کشمیر میں کنسٹیونٹ اسمبلی ہونی چاہیے۔ دلچسپ بات ہے کہ سنہ 1950 کے بعد کنسٹیونٹ اسمبلی وجود میں ہی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں؛ صنعت و حرفت کے پرنسپل سیکرٹری رنجن پرکاش ٹھاکر سے خصوصی گفتگو
قابل ذکر ہے کہ مارچ 2020 میں پانچ رکنی سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے واضح کیا کہ ’’اس حوالے سے دائر درخواستوں کو سات رکنی بینچ بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ تب سے آج تک اس معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے تاہم گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں سپریم کورٹ میں معاملے پر جلد سماعت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔