ETV Bharat / state

Places of Worship Act: جمعیت نے پیلس آف ورشپ ایکٹ کے خلاف عرضیوں کو سپریم کورٹ میں چیلینج کیا

author img

By

Published : Jun 5, 2022, 10:17 PM IST

گیان واپی مسجد کا قضیہ اورسپریم کورٹ میں پیلس آف ورشپ ایکٹ Places of Worship Act کے خلاف دائر عرضیوں کی مخالفت کے لئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے جس پر گرمیوں کی تعطیل کے بعد سماعت متوقع ہے۔ یہ اطلاع جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ پریس ریلیز میں دی گئی ہے۔

Maulana Arshad reached the Supreme Court against petitions challenging the Madani Worship Law
مولانا ارشد مدنی عبادت گاہ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے

نئی دہلی ؛ پریس ریلیز کے مطابق جہاں گیان واپی مسجد مقدمہ ایک جانب وارانسی کی ضلعی عدالت میں چل رہا ہے وہیں سپریم کورٹ میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جس میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گذارش کی گئی ہیں۔ سنہ 2020 میں سپریم کورٹ میں پلیس آف ورشپ ایکٹ Places of Worship Act کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020ہے۔ متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے بذریعہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ میں داخل کردی ہے، جس پر گرمیوں کی تعطیلات کے بعد اس پٹیشن پر سماعت متوقع ہے۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل مداخلت کار کی پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پٹیشن میں مزید کہا کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانونی 1991 نافذکرنے کے دو مقاصد تھے، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔عرضداشت میں تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: Jamiat on Gyanvapi Masjid : 'فیصلہ ٹی وی چینلوں پر نہیں، عدالتوں میں ہوگا'



عرضداشت میں مزیدکہا گیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔

اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔

واضح رہے کہ اس قبل بھی ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ اس پٹیشن پر 10 جولائی 2020 کو سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی تھی، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول و دیگر پیش ہوئے تھے۔ متذکرہ دونوں مداخلت کار کی عرضیوں میں گلزار احمد اعظمی مدعی ہیں۔

نئی دہلی ؛ پریس ریلیز کے مطابق جہاں گیان واپی مسجد مقدمہ ایک جانب وارانسی کی ضلعی عدالت میں چل رہا ہے وہیں سپریم کورٹ میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جس میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گذارش کی گئی ہیں۔ سنہ 2020 میں سپریم کورٹ میں پلیس آف ورشپ ایکٹ Places of Worship Act کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020ہے۔ متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے بذریعہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ میں داخل کردی ہے، جس پر گرمیوں کی تعطیلات کے بعد اس پٹیشن پر سماعت متوقع ہے۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل مداخلت کار کی پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پٹیشن میں مزید کہا کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانونی 1991 نافذکرنے کے دو مقاصد تھے، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔عرضداشت میں تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: Jamiat on Gyanvapi Masjid : 'فیصلہ ٹی وی چینلوں پر نہیں، عدالتوں میں ہوگا'



عرضداشت میں مزیدکہا گیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔

اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔

واضح رہے کہ اس قبل بھی ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ اس پٹیشن پر 10 جولائی 2020 کو سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی تھی، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول و دیگر پیش ہوئے تھے۔ متذکرہ دونوں مداخلت کار کی عرضیوں میں گلزار احمد اعظمی مدعی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.