وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں انجمن شرعی شیعیان دارالمصطفی کے صدر دفتر پر آج ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں علماء کی جانب سے ایک الگ، آزاد و خودمختار شیعہ وقف بورڈ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ میٹنگ میں شیعہ وقف بورڈ بننے کے نقصانات پر بھی بات چیت کی گئی۔ میٹنگ کی قیادت سید آغا حسن نے کی۔
میٹنگ میں علماء کرام نے شیعہ وقف بورڈ بننے کے نقصانات پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس پر کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے غور کیا۔ میٹنگ میں یہ طے پایا گیا کہ اتحاد کو وسعت دینے کے لئے علماء کشمیر کے درمیان ہم آہنگی اور نزدیکی روابط کے لئے مشترکہ طور پر کوششیں کی جائیں۔
اس سلسلے میں چھ افراد پر مشتمل ایک رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو لوگوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ شیعہ وقف بورڈ کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائیں گے۔
میٹنگ میں علمائے کرام کی جانب سے ایک الگ اور آزاد و خودمختار شیعہ وقف بورڈ بنائے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر سبھی علماء نے اتفاق رائے ظاہر کی۔ اس حوالے سے یہ بھی طے پایا کہ جموں و کشمیر میں شیعہ اوقاف کو منظم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ میٹنگ میں شیعہ فرقہ سے وابستہ لوگوں کے جملہ مسائل پر بھی بات چیت کی گئی۔
میٹنگ میں انجمن شرعی شیعان دار الیوسف کے صدر آغا سید ھادی اور مجلس اتحاد المسلمین کے مسرور عباس انصاری کے علاوہ کئی دیگر انجمنوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
میٹنگ کے ذریعے علماء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور مجلس علماء کی تشکیل کے بارے میں بھی حتمی فیصلہ کیا گیا۔
علماء کرام کا کہنا تھا کہ شریعت ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ ہم کسی غیر مسلم کے ہاتھوں میں اپنا سرمایہ سونپ دیں۔ میٹنگ میں یہ بھی طے پایا کہ جو رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ شیعہ بورڈ کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرے گی۔ رابطہ کمیٹی کی تشکیل کے بعد اب علماء کونسل کی تشکیل کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں جس کے یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
واضح رہے کہ ان دنوں وادی کشمیر میں یہ خبر عام ہے کہ یہاں مرکز کی جانب سے شیعہ وقف بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ اس حوالے سے لوگوں میں کہیں نہ کہیں تشویش پائی جا رہی ہے۔ وہیں علماء کرام بھی جموں و کشمیر میں شیعہ وقف بورڈ بننے کے فیصلے کے خلاف ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان علماء کی اپیل پر اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کی فضا کس طرح قائم ہوتی ہے اور یہ کتنا دیرپا ثابت ہوتی ہے۔