ETV Bharat / state

گیا: مزدوروں کے لیے شہد کی مکھی پالنے کی سرکاری اسکیم

بہار کے ضلع گیا میں لاک ڈاون کے دوران واپس آئے کئی مزدوروں کو شہد کی پیداوار کا روزگار ملا ہے۔ حکومت ان مزدوروں کو شہد کی مکھی پالنے کے لیے مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔

شہد کی کاشت کررہے ہیں مزدور
شہد کی کاشت کررہے ہیں مزدور
author img

By

Published : Jan 22, 2021, 4:14 PM IST

بہار کے گیا میں شہد کی مکھی پالنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ اس وقت جاری موسم میں پھولوں اور پھلوں کی بہتات ہے۔ ایسی صورت میں شہد کی مکھیاں پال کر شہد تیار کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے۔

لاک ڈاون کے نفاذ کے دوران بیرونی ریاستوں سے گھر واپس آئے مزدور اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے دیگر افراد کو حکومت کے تعاون سے شہد کی پیداوار تحت روز گار فراہم کیے جارہے یں ۔

شہد کی کاشت کررہے ہیں مزدور

محکمہ صنعت کے اسکیم کے تحت مزدوروں کو اس کے لئے حکومت سے گرانٹ بھی دیا جا رہا ہے۔ شہد کی مکھیوں کی پرورش کا کام موسم گرما کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔ مزدوروں کی آمدنی میں اضافہ کرنے اور انہیں دیگر روزگار سے جوڑنے کے لیے حکومت نے اس اسکیم کو جاری کیا ہے۔

حالانکہ، حکومت کی جانب سے مہاجر مزدوروں کو اس کے لیے ملنے والی گرانٹ کی پوری رقم دستیاب نہیں کرائی گئی ہے۔ تاہم پھر بھی گیا کے مانپور بلاک میں واقع کئیا پنچایت میں شہد کی مکھی پالنے کا کلسٹر بنایا گیا ہے.
مزدوروں کو تربیت دینے والے شری کانت کمار نے بتایا کہ یہاں بیس مزدوروں کے لیے مکھی پالنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس میں گیارہ مزدور ضلع میں ہی رہ کر مزدوری کرتے تھے جبکہ نو مزدور ایسے ہیں جو لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے دوران دیگر ریاستوں سے واپس اپنے گھر لوٹے تھے۔

ایک مزدور کو مکھی پالنے کے لیے پانچ باکس دیئے گئے ہیں۔ کل لاگت کے ایک لاکھ روپے ملنے تھے۔ بیس مزدوروں کے لیے بیس لاکھ روپے محکمہ صنعت کو ادا کرنے تھے۔ تاہم ابھی چار لاکھ 65 ہزار پانچ سو روپے ہی ملے ہیں۔

ایک لاکھ روپے میں پانچ باکس سمیت چہرے کاشیلڈ، پیکنگ مشین، ریفائنری مشین سمیت دیگر کئی اشیا شامل ہیں۔

انہوں نے اس روزگار کے متعلق کہا کہ اگر موسم سازگار رہا تو ایک بکس سے چالیس کلو تک شہد نکل سکتی ہے اور اس شہد کو خود مزدور ہی فروخت کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ گیا کے مانپور کلسٹر سے ابھی شہد تیار نہیں ہوئی ہے۔

شری کانت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو جگہ پیداوار کے لیے دستیاب کرائی گئی ہے وہ مکھیوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔

لاک ڈاون میں واپس لوٹنے والے مزدور سنتوش کمار اور تر پوراری نے بتایا کہ وہ بیرونی ریاستوں میں مزدوری کرتے تھے۔ اب حکومت نے روزگار یہیں دستیاب کرایا ہے اور یہ روزگار لمبے وقت کا ہے۔ جتنی رقم گرانٹ کے طور پر دینے کا اعلان کیا گیا تھا اتنی ملی نہیں ہے۔
یہ کاروبار انتہائی کم سرمائے سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اچھا خاصا منافع کمایا جا جا سکتا ہے اور اس کاروبار میں زیادہ مواقع بھی موجود ہیں۔

یہ کاروبار اس جگہ پر شروع کیا جا سکتا ہے جہاں ایسے پھولوں والے درخت موجود ہوں جو شہد کی مکھیوں کے لئے موزوں ہو۔ریاستی حکومت نے محکمہ صنعت کی طرف سے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو روزگار فراہم کرانے کی غرض سے اس کی شروعات کی ہے۔

بہار کے گیا میں شہد کی مکھی پالنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ اس وقت جاری موسم میں پھولوں اور پھلوں کی بہتات ہے۔ ایسی صورت میں شہد کی مکھیاں پال کر شہد تیار کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے۔

لاک ڈاون کے نفاذ کے دوران بیرونی ریاستوں سے گھر واپس آئے مزدور اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے دیگر افراد کو حکومت کے تعاون سے شہد کی پیداوار تحت روز گار فراہم کیے جارہے یں ۔

شہد کی کاشت کررہے ہیں مزدور

محکمہ صنعت کے اسکیم کے تحت مزدوروں کو اس کے لئے حکومت سے گرانٹ بھی دیا جا رہا ہے۔ شہد کی مکھیوں کی پرورش کا کام موسم گرما کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔ مزدوروں کی آمدنی میں اضافہ کرنے اور انہیں دیگر روزگار سے جوڑنے کے لیے حکومت نے اس اسکیم کو جاری کیا ہے۔

حالانکہ، حکومت کی جانب سے مہاجر مزدوروں کو اس کے لیے ملنے والی گرانٹ کی پوری رقم دستیاب نہیں کرائی گئی ہے۔ تاہم پھر بھی گیا کے مانپور بلاک میں واقع کئیا پنچایت میں شہد کی مکھی پالنے کا کلسٹر بنایا گیا ہے.
مزدوروں کو تربیت دینے والے شری کانت کمار نے بتایا کہ یہاں بیس مزدوروں کے لیے مکھی پالنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس میں گیارہ مزدور ضلع میں ہی رہ کر مزدوری کرتے تھے جبکہ نو مزدور ایسے ہیں جو لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے دوران دیگر ریاستوں سے واپس اپنے گھر لوٹے تھے۔

ایک مزدور کو مکھی پالنے کے لیے پانچ باکس دیئے گئے ہیں۔ کل لاگت کے ایک لاکھ روپے ملنے تھے۔ بیس مزدوروں کے لیے بیس لاکھ روپے محکمہ صنعت کو ادا کرنے تھے۔ تاہم ابھی چار لاکھ 65 ہزار پانچ سو روپے ہی ملے ہیں۔

ایک لاکھ روپے میں پانچ باکس سمیت چہرے کاشیلڈ، پیکنگ مشین، ریفائنری مشین سمیت دیگر کئی اشیا شامل ہیں۔

انہوں نے اس روزگار کے متعلق کہا کہ اگر موسم سازگار رہا تو ایک بکس سے چالیس کلو تک شہد نکل سکتی ہے اور اس شہد کو خود مزدور ہی فروخت کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ گیا کے مانپور کلسٹر سے ابھی شہد تیار نہیں ہوئی ہے۔

شری کانت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو جگہ پیداوار کے لیے دستیاب کرائی گئی ہے وہ مکھیوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔

لاک ڈاون میں واپس لوٹنے والے مزدور سنتوش کمار اور تر پوراری نے بتایا کہ وہ بیرونی ریاستوں میں مزدوری کرتے تھے۔ اب حکومت نے روزگار یہیں دستیاب کرایا ہے اور یہ روزگار لمبے وقت کا ہے۔ جتنی رقم گرانٹ کے طور پر دینے کا اعلان کیا گیا تھا اتنی ملی نہیں ہے۔
یہ کاروبار انتہائی کم سرمائے سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اچھا خاصا منافع کمایا جا جا سکتا ہے اور اس کاروبار میں زیادہ مواقع بھی موجود ہیں۔

یہ کاروبار اس جگہ پر شروع کیا جا سکتا ہے جہاں ایسے پھولوں والے درخت موجود ہوں جو شہد کی مکھیوں کے لئے موزوں ہو۔ریاستی حکومت نے محکمہ صنعت کی طرف سے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو روزگار فراہم کرانے کی غرض سے اس کی شروعات کی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.