جنوبی کشمیر کی ہمالیائی پہاڑیوں میں 3880 میٹر بلندی پر واقع مشہور سیاحتی مقام پہلگام سے تقریبا 48 کلو میٹر دور پہاڑی گپھا میں ہندوؤں کے دیوتا شیو سے منسوب برفانی لنگم کے درشن کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہندو کشمیر وارد ہوتے ہیں۔
ہندؤں کے مطابق ایک زمانہ میں بھگوان شیو، ماتا پاروتی کو امرکتھا سنانے کے لیے پہلگام چندن واڑی کے راستے ہمالیائی پہاڑیوں کے بیچ گھپا لے گئے تھے جسے آج امرناتھ گھپا کہتے ہیں۔
اس گھپا کا پتہ وادی کے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے پہلگام کے ملک گھرانے نے لگا لیا تھا اور تب سے امرناتھ گھپا میں شیولنگم کے درشن کا سلسلہ شروع ہوا۔
امرناتھ گھپا جانے کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک ضلع گاندربل سے جسے بال تل کہا جاتا ہے۔ دوسرا ضلع اننت ناگ کے معروف سیاحتی مقام پہلگام سے ضلع صدر مقام اننت ناگ سے پہلگام تک تقریباً 48 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔
یاتری ہر برس سخت سکیورٹی کے بیچ پہلگام پہنچ جاتے ہیں، نُن ون بیس کیمپ میں رات بھر قیام کرنے کے بعد صبح سویرے یاتریوں کو سخت سکیورٹی کے بیچ چندن واڑی روانہ کیا جاتا ہے۔
چندن واڑی پہلگام سے تقریبا 16 کلو میٹر دور ہے، جہاں سے امرناتھ گھپا کی جانب روانہ ہونے کے لیے یاتریوں کو 32 کلو میٹر کا سفر یا تو گھوڑوں پر یا پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔
یاتریوں کے لیے ہر سال ہیلی کاپٹر سروس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ امر ناتھ یاترا کے آخری پڑاؤ کے سلسلے میں شراون پورنیما کے موقعہ پرچھڑی مبارک امرناتھ گپھا پہنچائی جاتی ہے۔ اس موقعہ پر وہاں کثیر تعداد میں موجود یاتریوں انتہائی مذہبی عقیدت و جوش و جذبہ سے پوجا میں حصہ لیتے ہیں۔
بھجن اورخصوصی دعاؤں کے ساتھ ہی شراون پورنیما ،رکھشا بندھن کے موقعہ پرامر ناتھ یاترا اختتام پذیر ہو جاتی ہے ۔ وہیں وادی کے اکثریتی طبقہ کی جانب سے یاتریوں کو مکمل تعاون فراہم کرنے اور یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں،سنہ 2018میں دو لاکھ چوراسی ہزار284000یاتریوں نے یاترا کی تھی جبکہ سنہ2017 میں 259000 یاتریوں نے گھپا کا درشن کیا تھا، اس طرح سنہ 2017 کے مقابلہ میں سنہ 2018 میں تیاتریوں کی اضافی تعدا 23000 رہی۔
وہیں 2019 میں گزشتی برسوں کے مقابلہ میں کافی اضافہ دیکھنے کو مل رہا تھا تاہم 2 اگست کو حکومت کی جانب سے یاترا کو مکمل ہونے سے قبل ہی معطل کیا گیا تھا، جس کے بعد 5 اگست کو ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیا گیا۔جس دوران ہزاروں یاتریوں کو یاترا مکمل ہونے سے قبل ہی واپس لوٹنا پڑا تھا۔ رواں برس یاترا کو ماضی کی طرح صرف پندرہ روز تک محدود رکھا گیا ہے،لیکن یہ فیصلہ کورونا وائرس کے پس منظر میں لیا گیا ہے۔
دراصل نوے کی دہائی کے آغاز تک امرناتھ یاترا کی مدت صرف پندرہ روز ہوا کرتی تھی لیکن کشمیر میں ملیٹنسی شروع ہونے کے بعد یہ یاترا تضادات کا شکار رہی۔
نوے کی دہائی کے وسط میں ایک عسکریت پسند تنظیم نے یاترا پر پابندی لگائی جس کے بعد اس یاترا پر حکام کی توجہ مرکوز ہوگئی۔یاترا کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کئے جاتے ہیں۔
اضافی توجہ کے بعد اس یاترا کی جانب زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو راغب کرنے کی مہم شروع کی گئی چنانچہ سال بھر اسکے لیے قومی میڈیا میں تشہیری مہم چلائی گئی۔
بعد میں یاترا کی مدت پہلے ایک ماہ اور بعد میں دو ماہ تک بڑھائی گئی جس پر کشمیر میں عام لوگوںں اور خاص طور پر ماحولیات کے ماہرین نے اعتراض کیا۔.یہاں تک کہ عقلیتی طبقہ سے وابستہ ہندؤں نے بھی یاترا کی مدت میں کمی کرنے کی مانگ کی
سنہ دو ہزار آٹھ میں غلام نبی آزاد کی قیادت میں کانگریس اور پی ڈی پی حکومت نے امرناتھ شرائن بورڈ کے نام سرکاری اراضی الاٹ کی جس پر کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
حکومت کے فیصلے کے حق میں جموں اور اسکے نواحی اضلاع میں بھی احتجاج کیا گیا جس سے سابق ریاست کے دو اہم صوبے مذہبی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوگئے۔گوکہ حکومت نے اراضی کی منتقلی کا حکمنامہ واپس لیا لیکن اس صورتحال کے نتیجے میں مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوا۔
سنہ 2008میں پیدا شدہ صورتحال سے جو دراڑ پیدا ہوئی اسکو بعد میں کبھی پاٹا نہیں جاسکا ۔سنہ 2017میں امرناتھ یاترا ایک بار پھر موضوع بحث بنی جب مشتبہ عسکریت پسندوں نے یاتریوں کی ایک بس پر حملہ کرکے کئی یاتریوں کو ہلاک کردیا۔
گزشتہ برس 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکزی زیر انتظام والے دو علاقوں میں تقسیم کئے جانے کا فیصلہ عین اس وقت لیا گیا جب امر ناتھ یاترا جاری تھی۔حکام نے یاترا کو قبل از وقت بند کرنے کا اعلان کیا اور تمام یاتریوں کو خصوصی بسوں کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں کشمیر سے واپس لیجایا گیا۔
حکام نے استدلال پیش کیا کہ امرناتھ یاترا کے راستے میں اسلحہ کی بھاری کھیپ برآمد کی گئی ہے جس کے پس منظر میں یاترا پر حملوں کے خدشات ہیں۔بعد کی صورتحال کے بعد پتہ چلا کہ یاترا پر حملے کے خدشات نہیں تھے بلکہ گورنر انتظامیہ کشمیر کو ایک لاک ڈاؤن کے دائرے میں لانا چاہتی تھی تاکہ ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف مظاہرے منعقد نہ کئے جاسکیں۔پانچ اگست کے بعد کشمیر میں عائد کی گئی بندشیں کئی صورتوں میں ابھی بھی لاگو ہیں۔ حکام نے انٹرنیٹ کی4 جی خدمات بحال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ متعدد سیاسی رہنما ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔