ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ کے بیشتر مقامات پر مرکزی اسکیم سوچھ بھارت مشن کے تحت بنائے گئے بیت الخلا کے لیے ابھی تک پیسے واگزار نہیں کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ مرکزی حکومت سے نالاں ہیں۔
ایک جانب مرکزی حکومت یہ دعوا کر رہی ہے کہ 2014 سے 2019 کے درمیان تقریب 110 ملین بیت الخلا کی تعمیر کے لئے سبسڈی فراہم کی گئی ہے تو وہیں، دوسری جانب جنوبی کشمیر کے بجبہاڑہ کے پناڈ نام کے علاقہ سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ مرکزی اسکیم سوچھ بھارت مشن کے تحت دیے جانے والے پیسوں سے ابھی تک محروم ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ محکمہ دیہی ترقیات کے دفتر کے چکر لگاتے لگا کر تھک گئے ہیں۔ اب انہیں پرانے طریقے کے بیت الخلا استعمال میں لانے پڑتے ہیں۔
کووڈ-19 کے پیش نظر حکومت لوگوں سے احتیاتی تدابیر پرعمل کرنے کی بات کہتی ہے لیکن انہیں بیت الخلا جیسی بنیادی سہولیت سے محروم رکھ رہی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریاستی حکومت لوگوں کو بیت الخلا بنانے کے حوالے سے 12000 روپے فراہم کر رہی ہے لیکن پناڈ کے اکثر لوگ مرکز کی اسکیم سے ابھی بھی محروم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک تو 12000 روپیوں میں بیت الخلا بنانا ان کے لئے ناممکن ہے اور جن لوگوں نے بیت الخلا بنائے ہیں، کئی سال گذرنے کے باوجود انہیں ابھی بھی سرکار نے پیسے نہیں دیے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت آئے روز بڑے بڑے دعوے تو کر رہی ہے لیکن زمینی سطح پر حکومتی دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں دیسی مرغ پالنے کی روایت کیوں ختم ہو رہی ہے؟
واضح رہے کہ پناڈ گجر بستی کے رہایش پزیر لوگ مزدور طبقہ سے وابستہ ہیں۔ جو گزشتہ سال کے پانچ اگست سے کسم پُرسی کی زندگی گذار رہے ہیں اور ان کے لئے بیت الخلا بنانا کسی اونچی عمارت بنانے سے کم نہیں ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے جب یہ معاملہ بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر سری گفوارہ عرشی رسول کی نوٹس میں لایا تو انہوں نے کہا کہ محکمہ دیہی طرقیات کے پاس ابھی رقومات نہیں ہیں۔ جیسے ہی حکومت کی جانب سے پیسے واگزار کیے جائیں گئے مذکورہ علاقہ کے رہائش پزیر لوگوں کو فراہم کیے جائيں گے۔