کشمیر میں دیگرمقامات سے اکثر شکایات موصول ہوتی ہیں کہ کہیں پہ خانہ بدوش لوگوں کو جھونپڑیوں سے نکالا جا رہا ہے تو کہیں 50 سال پرانے سیزنل کوٹھے گرائے جا رہے ہیں۔ گجر بکروال قبیلے کا الزام ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ لوگ ان علاقہ جات میں اپنے مال مویشی کو لے کر رہتے آ رہے ہیں، مگر اس وقت محکمہ جنگلات نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں، اور گورنمنٹ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔
اس سلسلے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے گجر بکروال طبقے کے جنرل سیکرٹری محمد یاسین پوسوال سے بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ مرکزی گورنمنٹ نے 2006 میں فارسٹ رائٹ ایکٹ کو منظوری دی ہے اور یہ پورے ملک میں نافذ ہے، مگر اس وقت جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے 370 کا بہانہ بنا کر اسے اسمبلی میں پیش نہیں ہونے دیا اور پھر 2008 میں نیشنل کانفرنس کی حکومت نے بھی 370 کی آ ڑ میں آ کر فارسٹ رائٹ ایکٹ کو اسمبلی میں پاس نہ ہونے دیا، کیونکہ 370 کے ہوتے ہوئے مرکزی قانون کو ڈائریکٹ جموں و کشمیر میں نافذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جس کے لئے اسمبلی میں بل لانی پڑتی تھی۔ مگر وقت کے حکمرانوں نے جان بوجھ کر فارسٹ رائٹ ایکٹ کو نافذ نہیں ہونے دیا کیونکہ اس کا فائدہ پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کو ہونا تھا۔
گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ساری زندگی ان حکمرانوں کی وفاداری کی تھی اب جبکہ اس وقت نہ 370 ہے اور نہ سٹیٹ، اس لئے آسانی سے تمام مرکزی قوانین کا نفاذ ہو رہا ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ فارسٹ رائٹ ایکٹ کو ابھی بھی جموں و کشمیر میں نافذ نہیں کیا گیا ہے اور دہائوں سے ان علاقہ جات میں رہنے والے لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بارش کے سبب پہاڑ کھسکنے سے لوگوں کو مشکلات
گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مرکزی سرکار اور گورنر انتظامیہ سے گزارش کی ہے، کہ فارسٹ رائٹ ایکٹ کو فوری طور پر لاگو کیا جائے تاکہ لوگ راحت کی سانس لے سکیں۔
اس سلسلے میں جب ای-ٹی-وی بھارت کے نمائندہ نے ڈیوجنل فارسٹ آفیسر وائلڈ لائف وارڈن بجبہاڈہ عبدل رعوف زرگر نے فون پر بتایا کہ جو لوگ گجر بکروال طبقہ کو پریشنا کر رہے ہیں ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔