ETV Bharat / state

Kashmiri Moving Away From Farming: اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتا کشمیر کا کسان

ایک زمانے میں آمدنی کے ذرائع کم ہونے کے سبب کشمیری باشندے روزی روٹی کی تلاش میں ملک کی دوسری ریاستوں کا رُخ کرتے تھے، تاہم گذشتہ چند دہائیوں میں زراعت کے شعبے میں ترقی کے سبب کام کی تلاش کرنے والے لوگ خود کام فراہم کرنے لگے۔

kashmiri-farmers-moving-away-from-paddy-farming
اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتا کشمیری کسان
author img

By

Published : Jun 28, 2022, 5:31 PM IST

Updated : Jun 28, 2022, 7:47 PM IST

اننت ناگ: دور حاضر میں کھیتی باڑی میں تبدیلی آنے سے نہ صرف دیہاتی کلچر کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ایک دوسرے کی مدد اور ہاتھ بٹانے کی قدیم روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور کشمیر ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ تاہم وقت گزرنے اور ترقی میں جدت آنے کے ساتھ لوگ اپنی تہذیب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک زمانے میں ذرائع آمدن کم ہونے کے سبب کشمیری باشندے روزی روٹی کی تلاش میں ملک کی دوسری ریاستوں کا رُخ کرتے تھے،تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں زراعت کے شعبے میں ترقی کے سبب کام کی تلاش کرنے والے لوگ خود کام فراہم کرنے لگے۔ کشمیر کے کھیتوں میں آج غیر کشمیری مزدور جا بجا کام کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دھان کی روپائی اور کٹائی سے لے کر سیب کے باغات میں جراثیم ادویات کے چھڑکاؤ اور فصل کاٹنے کا کام تک غیر کشمیری مزدوروں سے کرایا جاتا ہے۔

اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتا کشمیر کا کسان
ان دنوں کشمیر میں دھان کی پنیری لگانے کا موسم آخری مرحلہ میں چل رہا ہے، یہاں کے کھیتوں میں جہاں نظر دوڑاتے ہیں وہاں غیر کشمیری مزدور کام میں مصروف عمل ہیں۔ماضی میں مزدوروں سے کام کرانے کے بجائے کشمیری لوگ ایک دوسرے کے کھیتوں میں مل جل کر دھان کی روپائی کیا کرتے تھے جسے مقامی طور پر "تھجہ کاد" کہا جاتا تھا۔ کھیتوں میں خاص کر مقامی خواتین کے بڑے ہجوم پنیری لگاتی نظر آرہی تھیں جس دوران کھیتوں میں نغموں کی صدائیں گونج سنائی دیتی تھی.اُن دنوں کام کے بدلے کام یہاں کا سب سے قدیم دیہاتی کلچر تھا.تاہم وقت گزرنے کے ساتھ زمینداری کے طور طریقے بدلنے لگے،اور یہ سب روایات ختم ہوتی چلی گئیں۔

موجودہ دور میں مزدوروں اور مشینریز کا استعمال عام ہونے لگا،جس سے یہ کلچر، کام کے بدلے دام میں تبدیل ہو گیا۔ماضی میں دھان کی پنیری نکالنے،اس کی روپائی، دھان کے کھیتوں سے فضول گھاس نکالنے سے لے کر دھان کی کٹائی میں لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے تھے جس میں ہر مذہب کے لوگ بلا مذہب و ملت شریک ہوتے تھے، یہ عمل نہ صرف یہاں کے تہزیب و ثقافت کے ورثہ کی عکاسی کرتا تھا بلکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی، ہمسایہ، رشتہ داروں، دوست و احباب کے ساتھ محبت و ملنساری کا جذبہ برقرار رہتا تھا۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مقامی بزرگوں نے کہا کہ طرز زندگی میں تیزی سے بدلاؤ ہونے کے سبب یہاں کے لوگ خود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انہون نے کہا کہ اچانک یہاں کے لوگوں میں اتنی کاہلی آگئی کہ اب ہر کام میں غیر کشمیری مزدوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، وہیں نئی نسل کھیتی باڑی میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان خود زمینداری کرنے میں پشیمانی محسوس کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

دوسری طرف آبادی بڑھنے اور ترقی کے بڑھتے رفتار سے زرعی اراضی سکڑنے لگی،زرعی اراضی کنکریٹ کالونیوں اور کمرشل عمارتوں کے نیچے دب گئی۔زمینداری سے جڑے دیہاتی کلچر کو ختم کرنے کی اور ایک وجہ یہ بھی ہے۔ غیر ریاستی مزدوروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انہیں کام بھی آسانی سے ملتا ہے اور مزدوری بھی اچھی ملتی ہے، وہیں مقامی لوگوں کا مزدوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہے، اسلئے وہ یہاں کام کرنا پسند کرتے ہیں... مزدوروں کا کہنا ہے کہ بڑھتی مانگ کو دیکھ کر اب وہ پورے کھیتوں کا کام ٹھیکے پر کرتے ہیں۔

اننت ناگ: دور حاضر میں کھیتی باڑی میں تبدیلی آنے سے نہ صرف دیہاتی کلچر کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ایک دوسرے کی مدد اور ہاتھ بٹانے کی قدیم روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور کشمیر ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ تاہم وقت گزرنے اور ترقی میں جدت آنے کے ساتھ لوگ اپنی تہذیب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک زمانے میں ذرائع آمدن کم ہونے کے سبب کشمیری باشندے روزی روٹی کی تلاش میں ملک کی دوسری ریاستوں کا رُخ کرتے تھے،تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں زراعت کے شعبے میں ترقی کے سبب کام کی تلاش کرنے والے لوگ خود کام فراہم کرنے لگے۔ کشمیر کے کھیتوں میں آج غیر کشمیری مزدور جا بجا کام کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دھان کی روپائی اور کٹائی سے لے کر سیب کے باغات میں جراثیم ادویات کے چھڑکاؤ اور فصل کاٹنے کا کام تک غیر کشمیری مزدوروں سے کرایا جاتا ہے۔

اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتا کشمیر کا کسان
ان دنوں کشمیر میں دھان کی پنیری لگانے کا موسم آخری مرحلہ میں چل رہا ہے، یہاں کے کھیتوں میں جہاں نظر دوڑاتے ہیں وہاں غیر کشمیری مزدور کام میں مصروف عمل ہیں۔ماضی میں مزدوروں سے کام کرانے کے بجائے کشمیری لوگ ایک دوسرے کے کھیتوں میں مل جل کر دھان کی روپائی کیا کرتے تھے جسے مقامی طور پر "تھجہ کاد" کہا جاتا تھا۔ کھیتوں میں خاص کر مقامی خواتین کے بڑے ہجوم پنیری لگاتی نظر آرہی تھیں جس دوران کھیتوں میں نغموں کی صدائیں گونج سنائی دیتی تھی.اُن دنوں کام کے بدلے کام یہاں کا سب سے قدیم دیہاتی کلچر تھا.تاہم وقت گزرنے کے ساتھ زمینداری کے طور طریقے بدلنے لگے،اور یہ سب روایات ختم ہوتی چلی گئیں۔

موجودہ دور میں مزدوروں اور مشینریز کا استعمال عام ہونے لگا،جس سے یہ کلچر، کام کے بدلے دام میں تبدیل ہو گیا۔ماضی میں دھان کی پنیری نکالنے،اس کی روپائی، دھان کے کھیتوں سے فضول گھاس نکالنے سے لے کر دھان کی کٹائی میں لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے تھے جس میں ہر مذہب کے لوگ بلا مذہب و ملت شریک ہوتے تھے، یہ عمل نہ صرف یہاں کے تہزیب و ثقافت کے ورثہ کی عکاسی کرتا تھا بلکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی، ہمسایہ، رشتہ داروں، دوست و احباب کے ساتھ محبت و ملنساری کا جذبہ برقرار رہتا تھا۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مقامی بزرگوں نے کہا کہ طرز زندگی میں تیزی سے بدلاؤ ہونے کے سبب یہاں کے لوگ خود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انہون نے کہا کہ اچانک یہاں کے لوگوں میں اتنی کاہلی آگئی کہ اب ہر کام میں غیر کشمیری مزدوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، وہیں نئی نسل کھیتی باڑی میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان خود زمینداری کرنے میں پشیمانی محسوس کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

دوسری طرف آبادی بڑھنے اور ترقی کے بڑھتے رفتار سے زرعی اراضی سکڑنے لگی،زرعی اراضی کنکریٹ کالونیوں اور کمرشل عمارتوں کے نیچے دب گئی۔زمینداری سے جڑے دیہاتی کلچر کو ختم کرنے کی اور ایک وجہ یہ بھی ہے۔ غیر ریاستی مزدوروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انہیں کام بھی آسانی سے ملتا ہے اور مزدوری بھی اچھی ملتی ہے، وہیں مقامی لوگوں کا مزدوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہے، اسلئے وہ یہاں کام کرنا پسند کرتے ہیں... مزدوروں کا کہنا ہے کہ بڑھتی مانگ کو دیکھ کر اب وہ پورے کھیتوں کا کام ٹھیکے پر کرتے ہیں۔

Last Updated : Jun 28, 2022, 7:47 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.