اننت ناگ (جموں کشمیر) : وادی کشمیر کو قدرت نے بے تحاشا وسائل سے نوازا ہے، ان میں یہاں کے سر سبز اور گھنے جنگلات سر فہرست ہیں جسے سبز سونا بھی کہا جاتا ہے۔ جنگلات نہ صرف ماحولیاتی توازن برقرار رکھتے ہیں بلکہ قرہ ارض پر ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار بھی پیڑ پودوں پر ہی منحصر ہے۔ جنگلات ایک ایسا قومی سرمایہ ہے جس کا نہ صرف ہماری زندگی میں عمل دخل ہے بلکہ یہ ہماری ضروریات کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان ضروریات میں تعمیرات کے لئے ضروری لکڑی بھی شامل ہے، جس کی وافر مقدار میں ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم ستم ظریفی ہے کہ کشمیر میں جنگلات کے بے تحاشا خزانے موجود ہونے کے باوجود وادی کشمیر میں تعمیراتی لکڑی کی عدم دستیابی پائی جاتی ہے۔
اگرچہ محکمہ جنگلات کی جانب سے لوگوں کو تعمیراتی لکڑی فراہم کی جاتی ہے، تاہم متعلقہ محکمہ مقامی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ وہیں محکمہ جنگلات کی جانب سے جنگلوں سے جو لکڑی جمع کرکے منڈیوں تک پہنچائی جاتی ہے اسے وقت پر فروخت نہیں کیا جا رہا ہے جس سے منڈیوں میں موجود لکڑی بوسیدہ ہو جاتی ہے جس سے نہ صرف سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ لوگوں تک تعمیراتی لکڑی نہیں پہنچ پا رہی ہے۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق وادی کشمیر میں تعمیراتی لکڑی کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے سالانہ 80 لاکھ مکعب فٹ لکڑی در آمد کی جاتی ہے۔ وادی میں تقریبا 8 ہزار مربع کلو میٹر جبکہ جموں صوبہ 12 ہزار مربع کلو میٹر پر جنگلاتی اراضی پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود بھی وادی میں تعمیراتی لکڑی کی مانگ پوری نہیں ہو رہی ہے۔ تعمیراتی لکڑی کی معقول دستیابی نہ ہونے کے سبب وادی کشمیر میں باہر سے لکڑی درآمد کی جاتی ہے، یہاں مکانوں اور کمرشل عمارات کی تعمیرات میں روس، جرمنی، ملیشیا سے درآمد شدہ لکڑی کا خوب استعمال ہو رہا ہے، جس سے یہاں کی معیشت کو بھاری نقصان ہو رہا ہے وہیں عوام کو ضروریات پورا کرنے کے لئے مہنگے داموں لکڑی خریدنا پڑتی ہے۔
مزید پڑھیں: خشک موسم سے کشمیر کے جنگلات آگ کی نذر
عوامی حلقوں میں محکمہ جنگلات کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ پر ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات کا کام صرف جنگلات کے تحفظ تک نہیں ہونا چاہئے بلکہ جنگلات ایک قومی سرمایہ ہے اور جنگلات سے لوگوں کو ہر طرح کا استفادہ ملنا چاہئے۔ وہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکار کو ایک ایسا میکانزم بنانا چاہئے جس سے جنگلات سے لکڑی بھی حاصل کی جائے اور لکڑی کی اسمگلنگ کو بھی روکا جا سکے۔ لکڑی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے اگر ایک درخت کاٹا جائے تو اس کے بدلے مزید دس درخت لگائے جائیں۔