ETV Bharat / sitara

Remembering Actor-Singer KL Saigal: درد بھرے نغموں کے شہشاہ کے ایل سہگل

شہنشاہ موسیقی کے ایل سہگل نے 15 سالہ کریئر میں 185 نغموں کے لیے اپنی آواز دی اور 36 فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ Saigal acted in 36 feature films

درد بھرے نغموں کے شہشاہ تھے سہگل
درد بھرے نغموں کے شہشاہ تھے سہگل
author img

By

Published : Jan 17, 2022, 12:41 PM IST

شہنشاہ موسیقی کے ایل سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ ان کی پیدائش 11 اپریل 1904 کو ہوئی تھی۔ معروف گلوکار اور اداکار کے مقامِ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ K. L. Saigal Death Anniversary
کچھ کا کہنا ہے کہ کے ایل سہگل جموں میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد تحصیلدار تھے تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔Remembering Singer KL Saigal


بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ کے ایل سہگل نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے ان کا تعلق تھا لیکن جب جموں میں تھے تو والدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن گایا کرتے تھے۔ Indian Singer and Actor

موسیقی اور گائیکی سہگل کی رگ رگ میں رچی بسی تھی جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اسے روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا اور بنا بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں۔


چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ تنخواہ پر سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات نیو تھئیٹر کے بانی بی این سرکار سے ہوئی۔

بی این سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیو ٹھیئٹر میں سہگل کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت پر رکھ لیا۔

نیو تھئیٹر میں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن، کے سی ڈے، پہاڑی سانیال اور پنکج ملک جیسے موسیقار موجود تھے جن میں بورل سب سے سینئیر تھے اور انہوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

نیو تھئیٹر کی فلموں سے ہی سہگل کو بھارت میں شہرت حاصل ہوئی۔ نیو تھیٹئر کے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دُھن پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں مشہور کردیا۔ مثلاً دیو داس کا نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت نا ہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔


نیو تھئٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ تین فلمیں بنائیں جو مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ، شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں جس سے سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔


1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔


دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک اعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک چھوٹی ذات کی لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے۔دیوداس پہلے بنگالی میں بنائی گئی تھی جس میں بروا نے دیوداس کا کردار ادا کیا۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسے ہندی میں بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔


سہگل نیو تھئیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، اسٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور کئی کامیاب بنگالی فلمیں شامل ہیں، اس کے بع انہوں نے بمبئی کا رخ کیا اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوگئے یہاں انہوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔ , Saigal moved to Mumbai to work with Ranjit Movietone


سہگل نے فلم تان سین کے بعد، جو 1944 میں ریلیز ہوئی تھی، 1947 تک سات فلموں میں کام کیا ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکرہے۔شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے۔


موسیقی کی تربیت باقائدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ اس وقت سہگل کے انداز کو اتنا پسند کیا گیا ہے دوسرے گلوکار بھی انہیں کی طرز پر گانے کی کوشش کرنے لگے۔ گلوکار مکیش نے بھی اپنے ابتدائی دنوں میں سہگل سے متاثر ہوکر کئی نغمے گائے۔سہگل کے دیگر مشہور نغموں میں ، غم دیئے مستقل، ایک بنگلہ بنے نیارہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے، میرے سپنوں کی رانی وغیرہ شامل ہیں۔he acted and sang in a number of successful films

سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ اگرچہ انہوں نے بڑے شاعروں کے کلام کو بھی گایا لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کو کچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے گا رہے ہوں۔ مشہور ہے کہ بیگم اختر بھی جو غزل کی گائکی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی تھیں سہگل کی بڑی مداح تھیں۔ He has rendered the creations of poets such as Ghalib , Zauq and seemab

سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947 میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر میوزک ڈائریکٹر سہگل سے کہتا کہ ریکارڈنگ سے پہلے شراب پی لیا کرو اس سے تمہاری آواز کی نغمگی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن خورشید انور نے انہیں شراب کے بغیر ہی ریکارڈ کیا۔ یہ فلم کچھ خاص کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے نغمے کافی مقبول ہوئے اور خورشید انور کو کسی ادارے کی جانب سے اس سال کے بہترین موسیقی کار کا انعام سے بھی نوازا گیا۔ Saigal acted in 36 feature films – 28 in Hindi, seven in Bengali

یہ بھی پڑھیں : Javed Akhtar Birthday: معروف نغمہ نگار جاوید اخترکی سالگرہ

سہگل 18جنوری 1947 کو جالندھر میں اس سرائے فانی سے کوچ کرگئے۔ شراب نوشی کی عادت نے ان کی زندگی کے سفر کو مختصر کر دیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمرمحض 42 برس رہی ہوگی۔ اس مختصر سی عمر میں انہوں نے اپنے لیے جو مقام بنایا ہے وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

یو این آئی

شہنشاہ موسیقی کے ایل سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ ان کی پیدائش 11 اپریل 1904 کو ہوئی تھی۔ معروف گلوکار اور اداکار کے مقامِ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ K. L. Saigal Death Anniversary
کچھ کا کہنا ہے کہ کے ایل سہگل جموں میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد تحصیلدار تھے تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔Remembering Singer KL Saigal


بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ کے ایل سہگل نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے ان کا تعلق تھا لیکن جب جموں میں تھے تو والدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن گایا کرتے تھے۔ Indian Singer and Actor

موسیقی اور گائیکی سہگل کی رگ رگ میں رچی بسی تھی جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اسے روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا اور بنا بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں۔


چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ تنخواہ پر سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات نیو تھئیٹر کے بانی بی این سرکار سے ہوئی۔

بی این سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیو ٹھیئٹر میں سہگل کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت پر رکھ لیا۔

نیو تھئیٹر میں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن، کے سی ڈے، پہاڑی سانیال اور پنکج ملک جیسے موسیقار موجود تھے جن میں بورل سب سے سینئیر تھے اور انہوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

نیو تھئیٹر کی فلموں سے ہی سہگل کو بھارت میں شہرت حاصل ہوئی۔ نیو تھیٹئر کے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دُھن پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں مشہور کردیا۔ مثلاً دیو داس کا نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت نا ہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔


نیو تھئٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ تین فلمیں بنائیں جو مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ، شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں جس سے سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔


1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔


دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک اعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک چھوٹی ذات کی لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے۔دیوداس پہلے بنگالی میں بنائی گئی تھی جس میں بروا نے دیوداس کا کردار ادا کیا۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسے ہندی میں بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔


سہگل نیو تھئیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، اسٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور کئی کامیاب بنگالی فلمیں شامل ہیں، اس کے بع انہوں نے بمبئی کا رخ کیا اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوگئے یہاں انہوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔ , Saigal moved to Mumbai to work with Ranjit Movietone


سہگل نے فلم تان سین کے بعد، جو 1944 میں ریلیز ہوئی تھی، 1947 تک سات فلموں میں کام کیا ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکرہے۔شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے۔


موسیقی کی تربیت باقائدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ اس وقت سہگل کے انداز کو اتنا پسند کیا گیا ہے دوسرے گلوکار بھی انہیں کی طرز پر گانے کی کوشش کرنے لگے۔ گلوکار مکیش نے بھی اپنے ابتدائی دنوں میں سہگل سے متاثر ہوکر کئی نغمے گائے۔سہگل کے دیگر مشہور نغموں میں ، غم دیئے مستقل، ایک بنگلہ بنے نیارہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے، میرے سپنوں کی رانی وغیرہ شامل ہیں۔he acted and sang in a number of successful films

سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ اگرچہ انہوں نے بڑے شاعروں کے کلام کو بھی گایا لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کو کچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے گا رہے ہوں۔ مشہور ہے کہ بیگم اختر بھی جو غزل کی گائکی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی تھیں سہگل کی بڑی مداح تھیں۔ He has rendered the creations of poets such as Ghalib , Zauq and seemab

سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947 میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر میوزک ڈائریکٹر سہگل سے کہتا کہ ریکارڈنگ سے پہلے شراب پی لیا کرو اس سے تمہاری آواز کی نغمگی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن خورشید انور نے انہیں شراب کے بغیر ہی ریکارڈ کیا۔ یہ فلم کچھ خاص کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے نغمے کافی مقبول ہوئے اور خورشید انور کو کسی ادارے کی جانب سے اس سال کے بہترین موسیقی کار کا انعام سے بھی نوازا گیا۔ Saigal acted in 36 feature films – 28 in Hindi, seven in Bengali

یہ بھی پڑھیں : Javed Akhtar Birthday: معروف نغمہ نگار جاوید اخترکی سالگرہ

سہگل 18جنوری 1947 کو جالندھر میں اس سرائے فانی سے کوچ کرگئے۔ شراب نوشی کی عادت نے ان کی زندگی کے سفر کو مختصر کر دیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمرمحض 42 برس رہی ہوگی۔ اس مختصر سی عمر میں انہوں نے اپنے لیے جو مقام بنایا ہے وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.