حیدرآباد: انتظامیہ کا مطلب ڈرانا یا مرعوب کرنا نہیں ہوتا۔ جو عوام کی آواز کو دبائے، وہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوری نظام کے حکمرانوں کو ان لوگوں کی سیاسی آزادی کا احترام کرنا چاہیے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ انہیں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں ہر کوئی حکومتی پالیسیوں کی ناکامیوں کے بارے میں بے خوف ہو کر بات کر سکے۔ انہیں ایسا نظام بنانا چاہیے جو لوگوں کی شکایات پر تحمل کے ساتھ غور کرے اور ان کا بروقت حل نکالنے کی سعی کرے۔ Indiscriminate Use of Repressive Laws Like UAPA
ہمارے ملک میں جمہوریت ہمارے لیڈروں کی فصیح و بلیغ تقریروں اور عمدہ انداز میں چھاپی گئی کتابوں میں خوب دھمک رہی ہے لیکن حقیقت حال بالکل مختلف ہے۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون یو اے پی اے ( ان لا فل ایکٹویٹیز پروینشن ایکٹ) کا غلط استعمال اس رجحان کی بہترین مثال ہے۔ اس قانون کا غلط استعمال آج کی حکومتیں اختلاف رائے کی آواز کو دبانے کے لیے کر رہی ہیں۔ گزشتہ سال، دہلی ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ حکومت دہشت گردانہ سرگرمیوں اور حکومت کے ساتھ اختلاف کرنے کے آئینی حق پر آواز بلند کرنے کی ہر دو سرگرمیوں کے درمیان تقسیم کی لکیر کو مٹا رہی ہے۔ یہ مشاہدہ اصل میں حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کی ارباب اقتدار کی روش پر دلالت کرتا ہے۔ مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا کے فرش پر انکشاف کیا ہے کہ یو اے پی اے کے تحت 2018 اور 2020 کے درمیان مجموعی طور پر 4690 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا،جن میں سے فقط 149 کو ہی سزا سنائی گئی تھی۔ سال 2014 سے لے کر سات سال کے عرصے میں اس ایکٹ کے تحت 10,552 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم ان میں سے صرف 253 کو سزا سنائی گئی۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کس طرح پولیس، سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا باعث بن رہا ہے۔ UAPA Wrecking Lives
محمد علی بٹ، لطیف احمد وازہ اور مرزا نثار حسین نامی تین کشمیری نوجوانوں کو 1996 میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم انہیں 26 سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد بری کر دیا گیا۔ ان پر لگائے گئے الزامات کو دہلی اور راجستھان کی عدالتوں نے مسترد کر دیا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ان کو وہ قیمتی سال واپس کر سکتا ہے جو انہوں نے جیل میں گزارے؟ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مطلب بے گناہوں کو ہراساں کرنا ہے؟
اعجاز احمدبابا نامی ایک اور کشمیری نوجوان کو گجرات پولیس والوں نے 2010 میں یو اے پی اے قانون کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا ۔ گیارہ سال کے طویک عرصے کے بعد مقامی عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ کی دلیل صرف جذباتی معاملات کے گرد گھومتی ہے۔ محمد الیاس اور عرفان کو 2012 میں مہاراشٹرا اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ نے اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ انہوں نے سیاسی رہنماؤں، پولیس افسران اور صحافیوں کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ انکے خلاف یو اے پی اے کے تحت الزامات وضع کئے گئے۔
بعد ازاں کیس کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کو بھی سونپ دیا گیا۔ آخر کار این آئی اے کی خصوصی عدالت نے انہیں بری کر دیا۔ جب انکو رہائی ملی تو وہ زار و قطار روررہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی زندگی کے نو قیمتی سال ضائع ہوگئے۔ان کے آنسو کون پونچھ سکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کئے جانے والوں میں سے 50 فیصد سے زیادہ 18 سے 30 سال کی عمر کے ہیں۔ جہاں ملزمان تاریک کوٹھریوں میں پڑے رہتے ہیں وہیں واحد کماؤ فرد کے کھو جانے سے ان کے خاندان کے افراد کی زندگیاں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ بہت سے کیسز میں عدالت کی جانب سے بری ہونے کا اعلان ہوجانے تک مبینہ ملزمان کے کئی قریبی عزیزوں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں اور انہیں انکو دوبارہ دیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔
یو اے پی اے ساڑھے پانچ دہائی قبل وجود میں آیا تھا۔ یو پی اے اور این ڈی اے حکومتوں نے 2004، 2008، 2013 اور 2019 میں اس ایکٹ میں ترامیم کیں۔ ان ترامیم نے سخت قانون کے پنجوں کو مزید تیز کر دیا جس سے ملزمین کے لیے ضمانت حاصل کرنا مزید مشکل ہو گیا۔ قانون کے نام پر ہی بہت ابہام ہے۔ جب باقاعدہ قانون کی اتنی شقیں ہیں جو آئینی طور پر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں مدد دیتی ہیں تو ایسے خصوصی قانون کی ضرورت کہاں تھی جو آئینی طور پر دیے گئے جینے کے حق کو سلب کرتا ہو۔
دہلی پولیس نے یو اے پی اے کے تحت دیونگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال نامی طلبہ لیڈروں کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر حراست میں لے لیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے انکے کیس کی شنوائی کے دوران مشاہدہ کیا کہ دلی پولیس نے اس قانون کی آڑ میں ان افراد کی شہری آزادی سلب کی ہے ۔ کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کے قانون کا غلط استعمال جمہوریت کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے منتخب حکومتیں لوگوں کا اعتماد کھو دیتی ہیں جب وہ معاشرے میں انارکی پیدا کرنے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتی ہے۔
عدالتیں عام طور پر دیگر قوانین کے تحت درج مقدمات میں ملزمان کو ضمانت دیتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے 1994 میں کہا تھا کہ ٹاڈا جیسے قوانین کے تحت عدالتوں کے ہاتھ باندھنے کے لیے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں تاکہ کسی کو ضمانت پر رہائی نہ مل سکے۔ اس میں کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے قانون کا صریحاً غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال تریپورہ پولیس نے ریاست میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف آواز اٹھانے پر وکلاء اور صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ ایڈیٹرز گلڈ نے بھی قانون کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہارکیا تھا۔
یہ افسوسناک بات ہے کہ جمہوری اقدار اور آزادی اظہار کے بارے میں بین الاقوامی فورمز پر ہمارے قائدین کے بلند بانگ الفاظ زمینی حقائق سے میل نہیں کھا رہے۔ یو اے پی اے کے تحت درج کیے گئے زیادہ تر کیس آسام، جھارکھنڈ، منی پور، تمل ناڈو اور اتر پردیش کے تھے۔ ریٹائرڈبیوروکریٹس اور ریٹائرڈ ججز قانون کے بے دریغ غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے اس استدلال کو کسی ابہام کے بغیر پیش کررہے ہیں کہ ہمارے جیسے جمہوری ملک میں اس طرح کے سخت قانون کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ حکومتیں قانون کو سیاسی حریفوں اور ناقدین کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایسے خطوط یا تجاویز کو کوڑے دان میں ڈال رہی ہیں۔ انفرادی آزادی کے خلاف حکومت کا عدم برداشت پر مبنی رویہ اور مخالف نقطہ نظر کو تسلیم نہ کرنے روزش نہ صرف خطرناک ثابت ہو گی بلکہ اس سے قومی یکجہتی کو بھی چیلنج ہوسکتا ہے۔