سنہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے دوران ایک حاملہ خاتون بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری Bilkis Bano Case کے تمام گیارہ قصورواروں کو گزشتہ دنوں ریاستی حکموت کی جانب سے رہائی کے فیصلے کو ملک کے علاوہ اب بیرون ممالک ميں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن USCIRF نے گینگ ریپ کے تمام مجرموں کی رہائی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس پر سخت نکتہ چینی کی۔ امریکی کمیشن کے کے نائب صدر ابراہم کوپر نے کہا کہ یو ایس سی آئی آر ایف گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون کا ریپ کرنے اور متعدد افراد کا قتل کرنے والے گیارہ افراد کی غیر منصفانہ رہائی کی مذمت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا کہ یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کرکے بچ جانے کے پیٹرن کا ہی حصہ ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سنہ 2002 کے گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث قصورواروں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکامی دراصل انصاف کے ساتھ مذاق ہے، یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کر کے سزا سے بچ جانے کے پیٹرن کا ایک حصہ ہے۔
دراصل 2002 گجرات میں مسلم مخالف فساد کے وقت ایک ہندو ہجوم نے بلقیس بانو پر حملہ کر دیا تھا، وہ اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اس وقت 21 سالہ بانو کو اس کے محلے کے مردوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کے خاندان کے چودہ افراد کو ہلاک کیا گیا، جن میں اس کی تین سالہ معصوم بیٹی بھی شامل تھی، جس بچی کو ماں کی گوند سے چھین کر مجرموں نے پتھر سے ٹکرا دیا تھا۔
بلقیس بانو کو انصاف پانے میں برسوں لگے، آخر کار 2008 میں مجرموں کو سزائیں ہوئیں۔ اس دوران بانو کو ہر وقت جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہیں، بار بار نقل مکانی کرنے اور روپوش ہونے پر مجبور ہوئیں۔ اور 2019 میں سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ وہ بانو کو تقریباً 62,000 ڈالر معاوضہ ادا کرے، اور یہ بھی کہا کہ بانو کو ایک خانہ بدوش اور یتیم کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
Bilkis Bano Case مجرموں کو بچانے کے لیے معافی کی پالیسی کا غلط استعمال کیا گیا
Bilkis Bano Gang Rape Case 'بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی رہائی سے عدالت سے عوام کا اعتماد ختم ہوگا'
AIMIM on Bilkis Bano Case جنسی زیادتی کے قصورواروں کی رہائی بی جے پی کی ذہنیت کا عکاس
لیکن چند روز قبل ہی بلقیس بانو کے قصوروار عمر قید کی سزا کاٹ رہے 11 افراد کو گجرات کی ریاستی حکومت کی طرف سے معافی پر جیل سے رہا کیا گیا، جس فیصلے کی بھارت میں شدید تنقید کی سوائے موجودہ حکومت کے۔ گودھرا کے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے نجی چینل سے ایک انٹر ویو کے دوران کہا کہ بلقیس بانو کے ساتھ عصمت دری کرنے والے 11 افراد برہمن تھے اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔
قابل ذکر ہے کہ بھارت میں عمر قید کی سزا موت تک ہوتی ہے، لیکن معافی کے تحت مجرم 14 سال بعد جلد رہائی حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگرچہ تازہ ترین معافی کی پالیسی کہتی ہے کہ عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو وقت سے پہلے رہا نہیں کیا جا سکتا، لیکن بلقیس بانو کیس کی پالیسی میں یہ فرق نہیں کیا گیا۔
بلقیس بانو کی طرف سے انصاف کے لیے جذباتی اپیل بھی کی گئی۔اپنے وکیل کے توسط سے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں بانو نے کہا کہ مجرموں کے رہائی والی خبروں نے مجھے بے سدھ کردیا ہے۔ میں نے سپریم کورٹ پر بھروسہ کیا، اور میں اپنے صدمے کے ساتھ جینا آہستہ آہستہ سیکھ رہی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ رہائی نے نظام انصاف پر اس کے اعتماد کو متزلزل کر دیا۔ اتنا بڑا اور غیر منصفانہ فیصلہ لینے سے پہلے کسی نے میری حفاظت اور خیریت کے بارے میں نہیں دریافت کیا۔
بانو کے شوہر یعقوب رسول نے کہا کہ ہم نے جو جنگ اتنے سالوں سے لڑی وہ ایک ہی لمحے میں ختم کر دی گئی۔بانو نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کا دکھ صرف ان کا نہیں ہے بلکہ ہر اس عورت کا ہے جو عدالتوں میں انصاف کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ مجھے بغیر خوف اور امن کے ساتھ جینے کا میرا حق واپس دو۔