ETV Bharat / international

Nine Eleven Terror Attacks نائن الیون حملوں کے اکیس برس مکمل، امریکہ کی شکست یا جیت

author img

By

Published : Sep 11, 2022, 4:21 PM IST

Updated : Sep 11, 2022, 5:01 PM IST

نائن الیون حملے کو آج 21 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ 11 ستمبر 2001 کو پرائیڈ آف نیویارک کے نام سے مشہور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا گیا۔ نیویارک میں ہونے والا یہ حملہ امریکہ کی سرزمین پر تاریخ کا بدترین حملہ تھا جس میں تقریباً 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملہ میں مسافر بردار طیاروں کو اغواء کرکے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں واقع عسکری مرکز پینٹاگون سے ٹکرا دیا گیا تھا جس کے لیے القاعدہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ Nine Eleven Terror Attacks

US marks 21st anniversary of 9/11 terror attacks
نائن الیون حملوں کے اکیس برس مکمل، امریکہ کی شکست یا جیت

امریکا میں گیارہ ستمبر 2001ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے اکیس برس مکمل ہوگئے جس کو پوری دنیا 9/11 کے نام سے جانتی ہے۔ نیویارک میں ہونے والا یہ حملہ امریکہ کی سرزمین پر تاریخ کا بدترین حملہ تھا جس میں تقریباً 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملہ میں مسافر بردار طیاروں کو اغواء کرکے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں واقع عسکری مرکز پینٹاگون سے ٹکرا دیا گیا تھا جس حملے کا مجرم عسکریت پسند تنظیم القاعدہ کو قرار دیا گیا تھا۔ Nine Eleven Terror Attacks

نائن الیون حملوں کے اکیس برس مکمل، امریکہ کی شکست یا جیت

یہی وہی وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا جو اس وقت امریکہ کا مرکز معاشی قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور پینٹا گون کو امریکہ کا سب سے بڑا عسکری مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ پہلے اغوا شدہ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرایا جس میں سب سے زیادہ 2753 اموات ہوئیں جبکہ اس حملہ میں 10 ہزار لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ وہیں دوسرا اغوا کردہ امریکن ایئرلائن کا طیارہ 77 پنٹاگان کی عمارت سے ٹکرایا جس کے نتیجہ میں 184 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ تیسرا اغواہ کردہ یونائٹیڈ ایئرلائن طیارہ 93 پنیسلوینیا کے شہر شینکزویہ کے قریب بے قابو ہوکر کھیت میں گرکر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 40 مسافرین ہلاک ہوگئے تھے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس اغوا کردہ طیارہ میں مسافرین اور عملے کی مزاحمت کے بعد اغوا کاروں نے طیارے کو ہدف پر لے جانے کے بجائے کھیت میں گراکر تباہ کر دیا۔ ان تینوں حملوں میں بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں نے عوامی جذبات بھڑکا دیے اور امریکی قوم صدمے کا شکار ہوگئی۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت اور سپر پاور ملک امریکہ کے لیے یہ حملہ کسی سیاہ دن اور ان کی تذلیل سے کم نا تھا۔

اس حملے کے بعد امریکا نے مایوسی اور دکھ کے ساتھ رد عمل کا اظہار کیا اور تمام عالمی برادری کی ہمدردی سمیٹ لی جس نے بھرپور غصے کا مظاہرہ اور بدلا لینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جس کے بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عسکریت پسند تنظیم القاعدہ کے خلاف War on Terror یعنی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کر دیا۔ ان حملوں کے فوری بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا جس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی لیکن القاعدہ سربراہ کے خاتمہ کے لیے واشنگٹن کو 10 سال لگ گئے۔ امریکا پولیس ایکشن یا اسپیشل فورسز کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے دس سال بعد یعنی 2011 میں پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہدف بنا کر ہلاک کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:

ایف بی آئی نے 9/11 حملوں کا پہلا دستاویز جاری کیا

نائن الیون حملے کی شدت تصویرں کی زبانی

اِس کے بعد بھی امریکی افواج افغانستان میں موجود رہی لیکن 29 فروری 2020 میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ پر دستخط کرکے افغان سے فوج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پروسیز اُس وقت مکمل ہوا جب موجودہ امریکی صدر جو بائیڈین نے اسی معاہدہ کے تحت 31 اگست 2021 کو افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لی ، جس کے ساتھ ہی امریکہ اور طالبان کی بیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔

امریکہ نے War on Terror یعنی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی ہی صورت میں 2003 ء میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عراق پر حملہ کر دیا۔ لیکن اس وقت امریکہ اس حملہ کا کوئی قانونی جواز بھی موجود نہیں رہا تھا۔ صدام حسین کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے کسی قسم کے روابط اور عراقی حکمران کی طرف سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سازی کے دعوے فسق اور جھوٹے تھے۔ برلن میں قائم ایک تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے منسلک ایک ماہر ژوہانس تھم کے بقول، ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 9 لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ تمام افراد براہ راست جنگ میں مارے گئے۔ ان میں سے قریب چار لاکھ عام شہری تھے۔

امریکہ کی اس جنگ میں ہونے والے اخراجات ایک تخمینے کے مطابق صرف امریکا کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ماہر بیرنڈ گرائنر کا کہنا ہے کہ ''پوری دنیا پر اس جنگ کے اثرات سے قطع نظر امریکا کو عراق اور افغانستان میں جنگ سے بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘وہیں امریکی مؤرخ اسٹیفن ورتھ ہائم کہتے ہیں ''امریکا اپنی اتنی بڑی آبادی اور وسیع وسائل کو نائن الیون کے حملوں کے تخریبی رد عمل کے بجائے متعدد تعمیری کاموں پر صرف کر سکتا تھا۔‘‘

امریکا میں گیارہ ستمبر 2001ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے اکیس برس مکمل ہوگئے جس کو پوری دنیا 9/11 کے نام سے جانتی ہے۔ نیویارک میں ہونے والا یہ حملہ امریکہ کی سرزمین پر تاریخ کا بدترین حملہ تھا جس میں تقریباً 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملہ میں مسافر بردار طیاروں کو اغواء کرکے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں واقع عسکری مرکز پینٹاگون سے ٹکرا دیا گیا تھا جس حملے کا مجرم عسکریت پسند تنظیم القاعدہ کو قرار دیا گیا تھا۔ Nine Eleven Terror Attacks

نائن الیون حملوں کے اکیس برس مکمل، امریکہ کی شکست یا جیت

یہی وہی وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا جو اس وقت امریکہ کا مرکز معاشی قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور پینٹا گون کو امریکہ کا سب سے بڑا عسکری مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ پہلے اغوا شدہ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرایا جس میں سب سے زیادہ 2753 اموات ہوئیں جبکہ اس حملہ میں 10 ہزار لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ وہیں دوسرا اغوا کردہ امریکن ایئرلائن کا طیارہ 77 پنٹاگان کی عمارت سے ٹکرایا جس کے نتیجہ میں 184 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ تیسرا اغواہ کردہ یونائٹیڈ ایئرلائن طیارہ 93 پنیسلوینیا کے شہر شینکزویہ کے قریب بے قابو ہوکر کھیت میں گرکر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 40 مسافرین ہلاک ہوگئے تھے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس اغوا کردہ طیارہ میں مسافرین اور عملے کی مزاحمت کے بعد اغوا کاروں نے طیارے کو ہدف پر لے جانے کے بجائے کھیت میں گراکر تباہ کر دیا۔ ان تینوں حملوں میں بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں نے عوامی جذبات بھڑکا دیے اور امریکی قوم صدمے کا شکار ہوگئی۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت اور سپر پاور ملک امریکہ کے لیے یہ حملہ کسی سیاہ دن اور ان کی تذلیل سے کم نا تھا۔

اس حملے کے بعد امریکا نے مایوسی اور دکھ کے ساتھ رد عمل کا اظہار کیا اور تمام عالمی برادری کی ہمدردی سمیٹ لی جس نے بھرپور غصے کا مظاہرہ اور بدلا لینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جس کے بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عسکریت پسند تنظیم القاعدہ کے خلاف War on Terror یعنی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کر دیا۔ ان حملوں کے فوری بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا جس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی لیکن القاعدہ سربراہ کے خاتمہ کے لیے واشنگٹن کو 10 سال لگ گئے۔ امریکا پولیس ایکشن یا اسپیشل فورسز کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے دس سال بعد یعنی 2011 میں پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہدف بنا کر ہلاک کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:

ایف بی آئی نے 9/11 حملوں کا پہلا دستاویز جاری کیا

نائن الیون حملے کی شدت تصویرں کی زبانی

اِس کے بعد بھی امریکی افواج افغانستان میں موجود رہی لیکن 29 فروری 2020 میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ پر دستخط کرکے افغان سے فوج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پروسیز اُس وقت مکمل ہوا جب موجودہ امریکی صدر جو بائیڈین نے اسی معاہدہ کے تحت 31 اگست 2021 کو افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لی ، جس کے ساتھ ہی امریکہ اور طالبان کی بیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔

امریکہ نے War on Terror یعنی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی ہی صورت میں 2003 ء میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے عراق پر حملہ کر دیا۔ لیکن اس وقت امریکہ اس حملہ کا کوئی قانونی جواز بھی موجود نہیں رہا تھا۔ صدام حسین کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے کسی قسم کے روابط اور عراقی حکمران کی طرف سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سازی کے دعوے فسق اور جھوٹے تھے۔ برلن میں قائم ایک تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے منسلک ایک ماہر ژوہانس تھم کے بقول، ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 9 لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ تمام افراد براہ راست جنگ میں مارے گئے۔ ان میں سے قریب چار لاکھ عام شہری تھے۔

امریکہ کی اس جنگ میں ہونے والے اخراجات ایک تخمینے کے مطابق صرف امریکا کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ماہر بیرنڈ گرائنر کا کہنا ہے کہ ''پوری دنیا پر اس جنگ کے اثرات سے قطع نظر امریکا کو عراق اور افغانستان میں جنگ سے بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘وہیں امریکی مؤرخ اسٹیفن ورتھ ہائم کہتے ہیں ''امریکا اپنی اتنی بڑی آبادی اور وسیع وسائل کو نائن الیون کے حملوں کے تخریبی رد عمل کے بجائے متعدد تعمیری کاموں پر صرف کر سکتا تھا۔‘‘

Last Updated : Sep 11, 2022, 5:01 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.