افغانستان میں جاری خشک سالی، جو کہ تین سالوں میں دوسری مرتبہ ہے، ملک کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے جبکہ یہ ملک جنگ اور سیاسی بحران کی لپیٹ میں بھی ہے۔
افغناستان میں طالبان حکومت کے اعلان کے بعد سے ہی ملک کی معیشت مسلسل زوال پذیر ہے، مقامی لوگ صورتحال کے بارے میں فکر مند ہیں اور نئی حکومت، اسلامی امارات افغانستان سے معاشی استحکام چاہتے ہیں۔
کابل کے ایک مقامی دوکاندار عبدالرحیم نے کہا کہ میں نئی حکومت، اسلامی امارات افغانستان سے معاشی استحکام چاہتا ہوں۔ کیونکہ لوگ صورتحال کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اور حکومت کو لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ "
ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں صرف پانچ فیصد لوگوں کے پاس ہی کھانے کے لیے کافی مقدار ہے۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی قیمتیں، نوکریوں میں کمی اور نقدی کی قلت، فاقہ کشی کا ایک نیا طبقہ پیدا کر رہی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک سروے کے مطابق 10 میں سے نو لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کافی کھانا نہیں ہے۔ اور ہمیں ان کی امداد کے لیے فوری طور پر تقریبا 200 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
ڈبلیو ایف پی کے چیف اکنامسٹ عارف حسین نے کہا کہ 10 میں سے تقریبا 7 انتہائی سخت مقابلہ کرنے کی حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں جیسے کھانا ادھار لینا ، کافی نہ کھانا ، کم معیار کی مصنوعات کھانا۔
حسین نے مزید کہا کہ آدھی آبادی پچھلے چند ہفتوں میں کم از کم ایک مرتبہ کے خوراک سے محروم ہوچکی ہے اور کہا کہ سردیوں سے پہلے امداد کی تیاری کے لیے 200 ملین امریکی ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔
- یمن میں کروڑوں افراد فاقہ کشی کے دہانے پر: اقوام متحدہ
- جی 20 اجلاس میں چین نے افغانستان پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کرنے پر زور دیا
وہیں، اقوام متحدہ کی ایجنسی نے اپنی پریس ریلیز میں کہہ چکی ہے کہ افغانستان کی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے، گزشتہ ماہ طالبان کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد غیر ملکی امداد کے بند ہونے سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا تین میں سے ایک افغان نہیں جانتا کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ ملک کے 5 سال سے کم عمر کے تقریبا نصف بچوں کو اگلے 12 ماہ میں شدید غذائیت کا شکار ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔