افغانستان کے قائم مقام وزیر تعلیم نور اللہ منیر نے کہا ہے کہ طالبان حکومت خواتین کی تعلیم (Taliban on Female Education) کی مخالف نہیں ہے، یہ لڑکیوں کا اسلامی اور قانونی حق ہے لیکن وہ موجودہ نصاب میں تبدیلی کرکے اسے اسلامی کردار دے گی۔
خامہ پریس کی خبر کے مطابق، افغانستان کے قائم مقام وزیر تعلیم نور اللہ منیر نے ایک مقامی خبر رساں ایجنسی باختر نیوز ایجنسی کو اپنے حالیہ انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ موجودہ نصاب میں تبدیلیاں لائیں گے اور اسے اسلامی بنائیں گے اگرچہ انہوں نے نئے اسلامی نصاب کی تفصیل نہیں بتائی۔
امارت اسلامیہ جس نے کئی صوبوں میں درجہ 7 سے 12 تک لڑکیوں کے اسکولوں پر پابندی عائد کی تھی، نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبات کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ اسلامی اسکالرز لڑکیوں کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار پر کام کرنے میں مصروف ہیں جو کہ اسلام اور افغان روایات کے مطابق ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
- افغانستان: طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت لیکن مخلوط تعلیم کی نہیں
- افغانستان میں صرف باحجاب خواتین ہی تعلیم اور روزگار حاصل کرسکیں گی: طالبان
- افغان لائبریرین خواتین کے لیے لائبریری کی بحالی کی منتظر
طالبان نے اگست کے وسط میں ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اسکولوں کو بند کر دیا تھا اور ہزاروں طالبات کو گھروں تک محدود کر دیا تھا، جس پر عالمی برادری کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔
اساتذہ کی تنخواہوں کے حوالے سے نگراں وزیر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر یونیسیف سے بات کر رہے ہیں۔
اس سے قبل یونیسیف نے افغان اساتذہ کو براہ راست مالی امداد اور تنخواہوں کا اعلان کیا تھا۔ تاہم امارت اسلامیہ افغانستان نے کہا ہے کہ تمام امداد ان کی نگرانی میں تقسیم کی جائے گی۔