ETV Bharat / international

اپنے ملک کو کسی دوسرے کی جنگ لڑنے میں تباہ نہیں کرسکتے: عمران خان

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعلقات پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے اور امریکا کا ساتھ دینے سے پاکستان کو کافی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

imran khan
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان
author img

By

Published : Sep 16, 2021, 2:15 PM IST

امریکہ کے نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 9/11 کے بعد سے امریکا کا ساتھ دینے پر ماضی میں ہمارے ہی لوگ ہمارے خلاف ہو گئے جن میں پشتون اور قبائلی آبادی قابل ذکر ہے۔

انھوں نے کہا کے ماضی میں ملک پر کئی عسکریت پسندانہ حملے ہوئے جس کی وجہ ہزاروں جانیں چلی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی ہلاک ہوگئیں۔ شہری علاقوں میں جتنے زیادہ فوجی آپریشنز کیے گئے، اس کے اتنے ہی زیادہ نقصانات ہوئے۔ ایک وقت میں 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ آور تھے۔

عمران خان نے کہا کہ 'ہم (پاکستان) کرائے کی بندوق کی طرح تھے۔ ان کو (امریکہ) کو افغانستان میں جنگ جیتنی تھی، لیکن وہ پاکستان کا استعمال کر کے یہ کرنا چاہتے تھے، جو ہم کبھی نہیں کر سکتے۔'

پاکستانی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے متعدد دفعہ امریکی حکام کو خبردار کیا کہ امریکہ عسکری طور پر افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا اور وہ وہاں پھنس جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی موجودگی کے عروج پر طالبان کے ساتھ طاقت کی پوزیشن سے سیاسی تصفیے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

واضح رہے کہ عمران خان اس سے قبل امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر تنقید کر چکے ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدر جو بائیڈن کے ساتھ بات نہیں کی ہے، اگرچہ پاکستان ایک بڑا غیر نیٹو اتحادی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے کہا 'میں تصور کرتا ہوں کہ جو بائیڈن بہت مصروف ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے بلکہ اسے کثیر الجہتی تعلقات کی ضرورت ہے۔'

پیر کے روز سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے گا۔ انہوں نے ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کی سماعت کے دوران کانگریس کو بتایا کہ پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جو ہمارے ساتھ متصادم ہیں۔

عمران خان نے اس طرح کے تبصروں کو جاہلانہ قرار دیا، اور سی این این کو بتایا کہ 'میں نے کبھی بھی ایسی جہالت نہیں سنی۔'

خان کے مطابق ہزاروں پاکستانیوں نے دہشت گردانہ حملوں میں اپنی جانیں گنوائیں کیونکہ ان کے ملک نے امریکہ کی حمایت کی تھی۔صرف اس لیے کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا، ہم نائن الیون اور افغانستان کی جنگ کے بعد امریکہ کے اتحادی بن گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو جس مصیبت سے گزرنا پڑا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا، ایک موقع پر 50 عسکریت پسند گروہ ہم پر حملہ کر رہے تھے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے بھی پاکستان پر 480 ڈرون حملے کیے گئے اور یہ سب حملے اتحادی ہونے کے باوجود کئے گئے۔

واضح رہے امریکہ نے متعدد دفعہ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں دینے کا الزام عائد کیا ہے، جس دعوے کی عمران خان نے تردید کی۔

عمران خان نے اس سوال کے جواب میں کہا 'یہ محفوظ ٹھکانے کیا ہیں؟'

عمران خان نے پوچھا کہ 'افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کے علاقے پر امریکی ڈرونز کی طرف سے سب سے زیادہ نگرانی کی گئی تھی، یقیناً انہیں معلوم ہوتا کہ محفوظ ٹھکانے کیا ہیں؟'

عمران خان نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اپنے ملک کو کسی اور کی جنگ لڑنے کے لیے تباہ نہیں کر سکتے اور بطور وزیراعظم ان کی ذمہ داری اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت اور تحفظ کرنا ہے۔

امریکہ کے نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 9/11 کے بعد سے امریکا کا ساتھ دینے پر ماضی میں ہمارے ہی لوگ ہمارے خلاف ہو گئے جن میں پشتون اور قبائلی آبادی قابل ذکر ہے۔

انھوں نے کہا کے ماضی میں ملک پر کئی عسکریت پسندانہ حملے ہوئے جس کی وجہ ہزاروں جانیں چلی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی ہلاک ہوگئیں۔ شہری علاقوں میں جتنے زیادہ فوجی آپریشنز کیے گئے، اس کے اتنے ہی زیادہ نقصانات ہوئے۔ ایک وقت میں 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ آور تھے۔

عمران خان نے کہا کہ 'ہم (پاکستان) کرائے کی بندوق کی طرح تھے۔ ان کو (امریکہ) کو افغانستان میں جنگ جیتنی تھی، لیکن وہ پاکستان کا استعمال کر کے یہ کرنا چاہتے تھے، جو ہم کبھی نہیں کر سکتے۔'

پاکستانی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے متعدد دفعہ امریکی حکام کو خبردار کیا کہ امریکہ عسکری طور پر افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا اور وہ وہاں پھنس جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی موجودگی کے عروج پر طالبان کے ساتھ طاقت کی پوزیشن سے سیاسی تصفیے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

واضح رہے کہ عمران خان اس سے قبل امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر تنقید کر چکے ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدر جو بائیڈن کے ساتھ بات نہیں کی ہے، اگرچہ پاکستان ایک بڑا غیر نیٹو اتحادی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے کہا 'میں تصور کرتا ہوں کہ جو بائیڈن بہت مصروف ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے بلکہ اسے کثیر الجہتی تعلقات کی ضرورت ہے۔'

پیر کے روز سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے گا۔ انہوں نے ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کی سماعت کے دوران کانگریس کو بتایا کہ پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جو ہمارے ساتھ متصادم ہیں۔

عمران خان نے اس طرح کے تبصروں کو جاہلانہ قرار دیا، اور سی این این کو بتایا کہ 'میں نے کبھی بھی ایسی جہالت نہیں سنی۔'

خان کے مطابق ہزاروں پاکستانیوں نے دہشت گردانہ حملوں میں اپنی جانیں گنوائیں کیونکہ ان کے ملک نے امریکہ کی حمایت کی تھی۔صرف اس لیے کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا، ہم نائن الیون اور افغانستان کی جنگ کے بعد امریکہ کے اتحادی بن گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو جس مصیبت سے گزرنا پڑا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا، ایک موقع پر 50 عسکریت پسند گروہ ہم پر حملہ کر رہے تھے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے بھی پاکستان پر 480 ڈرون حملے کیے گئے اور یہ سب حملے اتحادی ہونے کے باوجود کئے گئے۔

واضح رہے امریکہ نے متعدد دفعہ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں دینے کا الزام عائد کیا ہے، جس دعوے کی عمران خان نے تردید کی۔

عمران خان نے اس سوال کے جواب میں کہا 'یہ محفوظ ٹھکانے کیا ہیں؟'

عمران خان نے پوچھا کہ 'افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کے علاقے پر امریکی ڈرونز کی طرف سے سب سے زیادہ نگرانی کی گئی تھی، یقیناً انہیں معلوم ہوتا کہ محفوظ ٹھکانے کیا ہیں؟'

عمران خان نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اپنے ملک کو کسی اور کی جنگ لڑنے کے لیے تباہ نہیں کر سکتے اور بطور وزیراعظم ان کی ذمہ داری اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت اور تحفظ کرنا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.