اسمارٹ سٹی پراجیکٹس کے تحت جہاں سرینگر شہر کے کئی اہم سڑکوں، چوراہوں پر رنگ و روغن کام تیزی سے جاری ہے۔ اس مہم سے اُن آرٹسٹس کو روزگار مل رہا ہے جنہوں نے آرٹ کے شعبے میں تربیت حاصل کی ہے۔
اگرچہ اسمارٹ سٹی پراجیکٹس کے تحت ان آرٹسٹس کو کام فراہم کرانا خوش آئند بات ہے، لیکن ان فنکاروں کو یہ ملال ہے کہ انہیں اس طرح کے کام کے لیے سالہا سال انتظار کرناپڑتا ہے۔
ان فنکاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کام کرنے سے انہیں تبھی فائدہ ہوگا جب یہ مسلسل ملیں۔ اگر آرٹ گیلری کو سجانے اور سنوارنے کے لیے انہیں کام دیئے جائیں تو اس سے ان کے مشکلات کم کیے جا سکتے ہیں۔
چالیس برس سے پینٹنگ کر رہے محمد صادق کا کہنا ہے کہ اُن کی بنائی گئی پینٹنگز اس وقت وادی کے بیشتر ہوٹلوں اور اسکولوں میں نصب کی گئی ہیں۔
سنہ 1985 میں آرٹ کی تربیت حاصل کرنے کے بعد سے ہی وہ اس پیشے سے وابستہ ہیں تاہم روزگار ملنا بہت مُشکِل ہورہا ہے، کیونکہ زیادہ کام نہیں ہوتا۔ وہ چاہتے ہیں وادی میں آرٹ گیلریوں کو کھولا جائے جہاں آرٹسٹس اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔
کولکاتا کے ایک آرٹ کالج سے ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے کے بعد ندیم آج سرینگر شہر کو خوبصورت بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ وہ ویسے تو پینٹر ہیں تاہم وادی میں پینٹنگ کی جانب عوام کا رجحان ہے۔
مذکورہ کام میں ابھی ایک ماہ کا وقت اور لگ سکتا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کے آرٹسٹس کے لیے انتظامیہ کو کچھ کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: جموں کے لوگوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ لڑتا رہوں گا: جاوید رانا
آرٹ میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے بشارت کا کہنا ہے وہ وادی کے کئی اضلاع میں کام کر چکے ہیں۔ اس پروجیکٹ سے آرٹسٹ کو کافی فائدہ ہوا ہے بس صرف انتظامیہ کو ہمارے کام کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانا چاہیے۔ان فنکاروں کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر کی دیواروں پر یہاں کی تہذیب و تمدن کی جھلکیاں اب بآسانی دیکھنے کو ملیں گی۔