ETV Bharat / city

وادی کشمیر میں بھی پاركورکی مقبولیت میں اضافہ

پارکور ایک ایسا کھیل ہے جس میں نوجوان کسی ماہر کھلاڑی کی طرح اونچی دیواروں، سنگلاخ چٹانوں، سڑکوں اور پتھریلی زمینوں سمیت ہر نرم اور سخت جگہ پر الٹتے، پلٹتے، اچلتے، کھودتے اور اونچی قلابازیاں کھاتے دکھائی دیتے ہیں جسے دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

وادی کشمیر میں بھی پاركورکی مقبولیت میں اضافہ
وادی کشمیر میں بھی پاركورکی مقبولیت میں اضافہ
author img

By

Published : Aug 26, 2021, 7:39 PM IST

پارکور کا کھیل یورپ سے نکل کر اب کشمیر کی گلیو ں تک پہنچ گیا ہے۔کشمیر میں اس کھیل کو متعارف کرانے کا سہرا باصلاحیت نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی پارکور مقبول ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وادی کے نوجوان اس کھیل کی جانب راغب ہوتے نظر آرہے ہیں اور اکثر یہاں کے باغات میں اس فن کی مشق کرتے نظر آرہے ہیں۔

وادی کشمیر میں بھی پاركورکی مقبولیت میں اضافہ



پارکور کھیل کے ٹرینر اور فیسٹ اکیڈمی کے مالک زاہد شاہ کا کہنا ہے کہ' اس کھیل کا اپنا کوئی اصول و ضوابط اب تک نہیں ہے، کھلاڑی اپنے قوانین خود بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک نیا کھیل ہے اور تقریباً 20 برس قبل اس کا نام منظر عام پر آیا ہے۔ انہوں نے کیا کہ اس کھیل کی شروعات فرانس میں ہوئی، پھر یورپی ممالک پہنچا، اس کے بعد امریکہ۔ بھارت میں کھیل سنہ 2006 میں شروع کیا گیا اور پھر چار سال بعد کشمیر میں سنہ 2010 میں نوجوانوں نے اس کھیل کے جانب راغب ہوئے ہیں

شاہ کے کہنا ہے شروعات میں اُن کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ ہر ایک نائی چیز کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب سب کو سمجھ آیا تو سب کا ساتھ بھی ملا اور تعریف بھی ہوئی۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ "پارکور کا مستقبل کشمیر میں بہتر نظر آرہا ہے۔ جب ہم مشق کرتے ہیں تو لوگ دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ یہ کھیل کافی پرکشش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹریننگ کے لیے کافی لوگ آگے آتے ہیں لیکن پھر چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو آخر تک ڈٹے رہتے ہیں۔ اس کھیل کا مشق آسان نہیں ہوتا۔ شاہ کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اس کھیل کو دیکھنے کے لیے فرمائش کرتے رہتے ہیں لیکن وہ سماجی اور سرکاری قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ اُن کے لیے آزادی کا مطلب اپنے خیالات کو بنا کسی پابندی کے اظہار کرنا ہے۔

وہیں پاركور کی مشق کرنے والے کھلاڑی فرزان الطاف بٹ کا کہنا ہے کہ "میں سنہ 2016 سے پارکورِ کر رہا ہوں۔ بچپن میں کارٹون دیکھ کر کرتب کرتا تھا بعد میں جب سُنا سرینگر کے صورہ علاقے میں اکیڈمی کھلی ہے تو وہاں داخلہ لیا اور تب سے لگاتار مشق کر رہا ہوں۔" اُن کا مزید کہنا ہے کہ "آج کل دن میں صرف چار گھنٹے مشق کرتے ہیں۔ پہلے اکیڈمی صرف اتوار کو کھلی ہوتی تھی اس کے باوجود ہم شہر کے دیگر مقامات پر جا کر مشق کرتے تھے۔ پارکور میری شخصیت ہے اس سے مجھے موومنٹ کی آزادی ملی۔"

مزید پڑھیں:



ایک دوسرے پارکور کرنے والے کھلاڑی شاہد بشیر میر کا کہنا ہے کہ "کبھی کبھی ہمارا موازنہ بندر سے کیا جاتا ہے۔ اس کھیل کے لیے ابھی بھی کشمیر میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے جس کے لیے انتظامیہ کی جانب سے تعاون کی ضرورت ہے۔ شاید بشیر کے مطابق "کافی ممالک اس کھیل کو اپنا چکے ہیں اب بس چند اور ممالک کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد پارکور بھی اولمپک کھیل ہوگا۔" اگرچہ پارکور کا شمار اولمپک کے کھیلوں میں نہیں کیا گیا تاہم کھلاڑیوں کو اُمید ہے کہ جلد ہی اسے اولمپک میں شامل کیا جائیگا ۔

پارکور کا کھیل یورپ سے نکل کر اب کشمیر کی گلیو ں تک پہنچ گیا ہے۔کشمیر میں اس کھیل کو متعارف کرانے کا سہرا باصلاحیت نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی پارکور مقبول ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وادی کے نوجوان اس کھیل کی جانب راغب ہوتے نظر آرہے ہیں اور اکثر یہاں کے باغات میں اس فن کی مشق کرتے نظر آرہے ہیں۔

وادی کشمیر میں بھی پاركورکی مقبولیت میں اضافہ



پارکور کھیل کے ٹرینر اور فیسٹ اکیڈمی کے مالک زاہد شاہ کا کہنا ہے کہ' اس کھیل کا اپنا کوئی اصول و ضوابط اب تک نہیں ہے، کھلاڑی اپنے قوانین خود بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک نیا کھیل ہے اور تقریباً 20 برس قبل اس کا نام منظر عام پر آیا ہے۔ انہوں نے کیا کہ اس کھیل کی شروعات فرانس میں ہوئی، پھر یورپی ممالک پہنچا، اس کے بعد امریکہ۔ بھارت میں کھیل سنہ 2006 میں شروع کیا گیا اور پھر چار سال بعد کشمیر میں سنہ 2010 میں نوجوانوں نے اس کھیل کے جانب راغب ہوئے ہیں

شاہ کے کہنا ہے شروعات میں اُن کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ ہر ایک نائی چیز کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب سب کو سمجھ آیا تو سب کا ساتھ بھی ملا اور تعریف بھی ہوئی۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ "پارکور کا مستقبل کشمیر میں بہتر نظر آرہا ہے۔ جب ہم مشق کرتے ہیں تو لوگ دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ یہ کھیل کافی پرکشش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹریننگ کے لیے کافی لوگ آگے آتے ہیں لیکن پھر چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو آخر تک ڈٹے رہتے ہیں۔ اس کھیل کا مشق آسان نہیں ہوتا۔ شاہ کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اس کھیل کو دیکھنے کے لیے فرمائش کرتے رہتے ہیں لیکن وہ سماجی اور سرکاری قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ اُن کے لیے آزادی کا مطلب اپنے خیالات کو بنا کسی پابندی کے اظہار کرنا ہے۔

وہیں پاركور کی مشق کرنے والے کھلاڑی فرزان الطاف بٹ کا کہنا ہے کہ "میں سنہ 2016 سے پارکورِ کر رہا ہوں۔ بچپن میں کارٹون دیکھ کر کرتب کرتا تھا بعد میں جب سُنا سرینگر کے صورہ علاقے میں اکیڈمی کھلی ہے تو وہاں داخلہ لیا اور تب سے لگاتار مشق کر رہا ہوں۔" اُن کا مزید کہنا ہے کہ "آج کل دن میں صرف چار گھنٹے مشق کرتے ہیں۔ پہلے اکیڈمی صرف اتوار کو کھلی ہوتی تھی اس کے باوجود ہم شہر کے دیگر مقامات پر جا کر مشق کرتے تھے۔ پارکور میری شخصیت ہے اس سے مجھے موومنٹ کی آزادی ملی۔"

مزید پڑھیں:



ایک دوسرے پارکور کرنے والے کھلاڑی شاہد بشیر میر کا کہنا ہے کہ "کبھی کبھی ہمارا موازنہ بندر سے کیا جاتا ہے۔ اس کھیل کے لیے ابھی بھی کشمیر میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے جس کے لیے انتظامیہ کی جانب سے تعاون کی ضرورت ہے۔ شاید بشیر کے مطابق "کافی ممالک اس کھیل کو اپنا چکے ہیں اب بس چند اور ممالک کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد پارکور بھی اولمپک کھیل ہوگا۔" اگرچہ پارکور کا شمار اولمپک کے کھیلوں میں نہیں کیا گیا تاہم کھلاڑیوں کو اُمید ہے کہ جلد ہی اسے اولمپک میں شامل کیا جائیگا ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.