ETV Bharat / city

What is UAPA Act: "یو اے پی اے" قانون کیا ہے؟

author img

By

Published : Aug 23, 2021, 6:13 PM IST

Updated : Jun 21, 2022, 12:30 PM IST

جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد تنظیم نو قانون 2019 کے تحت متعدد قوانین کے علاوہ سخت ایکٹ یو اے پی اے کا اطلاق بھی یہاں عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت متعدد افراد یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ضمانت پر رہائی پاکرعدالتوں میں کئی معاملات زیر غور ہیں۔

"یو اے پی اے" قانون کیا ہے؟
"یو اے پی اے" قانون کیا ہے؟

یو اے پی اے کا مطلب آن لاء فُل ایکٹیوِٹیز پری وینشن ایکٹ (Unlawful Activities (Prevention) Act) ہے یعنی ایسے فرد یا جماعت جو کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائے تو اس پر یو اے پی اے کا اطلاق ہوتا ہے۔ یو اے پی اے سنہ 1967 میں ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے جیسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

"یو اے پی اے" قانون کیا ہے؟


جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد تنظیم نو قانون 2019 کے تحت متعدد قوانین کے علاوہ سخت ایکٹ یو اے پی اے کا اطلاق بھی یہاں عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت متعدد افراد یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ضمانت پر رہائی پاکر عدالتوں میں کئی معاملات زیر غور ہیں۔
یو اے پی اے کا اصل خدوخال کیا ہے، ملک مخالف سرگرمیوں کے علاوہ کن جرائم پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور عدالتوں میں یو اے پی اے کے معاملات زیادہ سامنے کیوں آرہے ہیں۔ اس سب پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل اعجاز احمد ڈار سے خصوصی گفتگو کی۔

گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ اگست 2019 میں قانونی ترمیم کے بعد اب غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی جماعت کے علاوہ فرد کو یو اے پی اے کے تحت شدت پسند قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہیں اس شخص یا جماعت کے اثاثوں کو بھی ضبط کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ این آئی اے کو کارروائی کرنے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ اس سے قبل این آئی اے کو کسی شخص یا جماعت پر کارروائی کرنے سے قبل اسے متعلقہ ریاست یا یوٹی کی پولیس سے اجازت لینی پڑتی تھی لیکن ترمیم کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایڈوکیٹ اعجاز احمد ڈار نے کہا کہ عدالتوں میں آج کل پی ایس اے کے ساتھ ساتھ یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ پولیس کے کام کرنے کے طریقۂ کار میں بدلاؤ آیا ہے۔

بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے دراصل بنیادی طور پر عسکریت پسندی مخالف قانون ہے جس کا مقصد انفرادی یا اجتماعی طور پر انجام دینے والی شدت پسندانہ سرگرمیوں پر موثر طور پر قابو پانا ہے۔ اس قانون کو ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کا پیشرو مانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حریت کانفرنس پر 'یو اے پی اے' کے تحت پابندی عائد کرنے کا امکان


نمائندے کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایڈوکیٹ اعجاز احمد ڈار نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت ان افراد کو بھی سزادی جاسکتی ہے جو انفرادی یا اجتماعی طور پر ملک مخالف سرگرمیوں کو ا نجام دینے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں ملوث ہوں یا ملک کی سالمیت کے خلاف سازش رچنے، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے میں ملوث ہوں۔ ان کے خلاف یو اے پی اے کے مختلف سیکشنز کے تحت کیسز درج کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں سیکشن 13،15،17،16اور سیکشن 18 وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

مزید پڑھیں:یو اے پی اے کیا ہے؟ اور اس کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟


انہوں نے کہا کہ سیکشن 13 کے تحت ہر اس شخص کو 7 برس تک کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے جو کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی وکالت کرے، کسی کو اس پر آمادہ کرے، کسی کو مشورہ دے یا اسے انجام دینے کے لیے اکسائے۔ جب کہ سیکشن 16 کے تحت اس شخص کو موت یا عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

یو اے پی اے کا مطلب آن لاء فُل ایکٹیوِٹیز پری وینشن ایکٹ (Unlawful Activities (Prevention) Act) ہے یعنی ایسے فرد یا جماعت جو کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائے تو اس پر یو اے پی اے کا اطلاق ہوتا ہے۔ یو اے پی اے سنہ 1967 میں ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے جیسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

"یو اے پی اے" قانون کیا ہے؟


جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد تنظیم نو قانون 2019 کے تحت متعدد قوانین کے علاوہ سخت ایکٹ یو اے پی اے کا اطلاق بھی یہاں عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت متعدد افراد یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ضمانت پر رہائی پاکر عدالتوں میں کئی معاملات زیر غور ہیں۔
یو اے پی اے کا اصل خدوخال کیا ہے، ملک مخالف سرگرمیوں کے علاوہ کن جرائم پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور عدالتوں میں یو اے پی اے کے معاملات زیادہ سامنے کیوں آرہے ہیں۔ اس سب پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل اعجاز احمد ڈار سے خصوصی گفتگو کی۔

گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ اگست 2019 میں قانونی ترمیم کے بعد اب غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی جماعت کے علاوہ فرد کو یو اے پی اے کے تحت شدت پسند قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہیں اس شخص یا جماعت کے اثاثوں کو بھی ضبط کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ این آئی اے کو کارروائی کرنے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ اس سے قبل این آئی اے کو کسی شخص یا جماعت پر کارروائی کرنے سے قبل اسے متعلقہ ریاست یا یوٹی کی پولیس سے اجازت لینی پڑتی تھی لیکن ترمیم کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایڈوکیٹ اعجاز احمد ڈار نے کہا کہ عدالتوں میں آج کل پی ایس اے کے ساتھ ساتھ یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ پولیس کے کام کرنے کے طریقۂ کار میں بدلاؤ آیا ہے۔

بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے دراصل بنیادی طور پر عسکریت پسندی مخالف قانون ہے جس کا مقصد انفرادی یا اجتماعی طور پر انجام دینے والی شدت پسندانہ سرگرمیوں پر موثر طور پر قابو پانا ہے۔ اس قانون کو ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کا پیشرو مانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حریت کانفرنس پر 'یو اے پی اے' کے تحت پابندی عائد کرنے کا امکان


نمائندے کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایڈوکیٹ اعجاز احمد ڈار نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت ان افراد کو بھی سزادی جاسکتی ہے جو انفرادی یا اجتماعی طور پر ملک مخالف سرگرمیوں کو ا نجام دینے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں ملوث ہوں یا ملک کی سالمیت کے خلاف سازش رچنے، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے میں ملوث ہوں۔ ان کے خلاف یو اے پی اے کے مختلف سیکشنز کے تحت کیسز درج کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں سیکشن 13،15،17،16اور سیکشن 18 وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

مزید پڑھیں:یو اے پی اے کیا ہے؟ اور اس کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟


انہوں نے کہا کہ سیکشن 13 کے تحت ہر اس شخص کو 7 برس تک کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے جو کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی وکالت کرے، کسی کو اس پر آمادہ کرے، کسی کو مشورہ دے یا اسے انجام دینے کے لیے اکسائے۔ جب کہ سیکشن 16 کے تحت اس شخص کو موت یا عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

Last Updated : Jun 21, 2022, 12:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.