مقامی لوگوں کے مطابق قصبے کی مسجد جدید میں مصلیان نماز ظہر ادا کررہے تھے ۔ اس دوران فوج کی 21 راشٹریہ رائفلز سے وابستہ اہلکار وہان نمودار ہوئے اور نمازیوں کی ویڈیو بنانے لگے۔
لوگ شش و پنج میں مبتلا ہوئے کہ آکر فوج انکی ویڈیو ریکارڈنگ کیوں کررہی ہے۔ ایک بُزرگ نمازی نے آرمی کے اس عمل پر اعتراض جتاتے ہوئے ویڈیو بنانے سے منع کیا، بعد ازاں چند نوجوان مشعتل ہوگئے اور آرمی کے ویڈیو بنانے پر اعتراض کرتے ہوئے نعرے بازی کی جس کے بعد آرمی جوانوں نے فائرنگ کردی۔ اس فائرنگ میں دو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جنہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ فائرنگ کے واقعہ کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہوگئے ہیں اور تمام دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔Firing in Handwara
اس معاملے میں ہندوارہ کے سُپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ گُپتا نے کہا کہ 'یہ حادثاتی فائرنگ ہے جس میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں تاہم ان کی حالت مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہے۔
زخمیوں کی شناخت مجیب الرحمان صوفی ولد غلام احمد صوفی ساکن ہندوارہ اور عبدالاحد میر ولد عبدالغفار میر ساکن نچہامہ زچلڈارہ کے طور ہوئی ہے۔
پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے فائرنگ کی مزمت کرتے ہوئے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہون نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو سزا سے ہمکنار کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک المناک صورتحال ہے کہ ایک پر امن ترین قصبہ میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے۔ سجاد لون کا تعلق ہندوارہ سے ہے اور سابق اسمبلی میں وہ اسی حلقے کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے فائرنگ واقعے کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کی مذہبی معاملات میں مداخلت، اور نماز جیسے عام مزہبی عمل کی نگرانی اس بات کو طاہر کرتی ہے کشمیری عوام کو نیا کشمیر کے مفروضے کیلئے بہت قیمت چکانا پڑرہی ہے۔