علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ہندوستانی افواج میں آر می چیف کے بعد دوسرے نمبر کے عہدہ پر متمکن رہے لیفٹننٹ جنرل (ر) ضمیرالدین شاہ نے گجرات فسادات کی 20ویں سالگرہ پر خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 27فروری کو وہ راجستھان کے جودھپور میں فوجی کیمپ میں تھے۔انہیں آرمی چیف کا فون آیاکہ انہیں 3ہزار جوانوں کے ساتھ جانا ہے۔میں نے ایک دن کا وقت طلب کیا مگر آرمی چیف نے کہا کہ فوری طور پر احمد آباد پہنچنا ہوگا۔ہندوستانی فضائیہ اس میں مدد کرے گی۔اس کے بعد شام 7بجے سے رات 9بجے تک 40ہندوستانی فضائیہ کی خصوصی پروازوں سے 3ہزار جوان گجرات پہنچ گئے۔
Lt gen (r) zamiruddin Shah recalls gujarat riots
ضمیر الدین شاہ اسوقت فوج کی مغربی کمان کے سربراہ تھے۔
ضمیر الدین شاہ نے بتایا کہ جب ان کے جہاز احمد آبادکی فضا میں پہنچے تو ہرطرف دھواں ہی دھواں نظر آرہا تھا۔انہوں نے بتایاکہ 28فروری کی رات سے یکم مارچ تک ریاستی حکومت کی طرف نہ گاڑی فراہم کی گئی نہ ہی موبائل فون اور نہ دیگر سہولیات۔جب کہ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے انہوں نے رات 12بجے ملاقات کی تو انہوں نے ہر سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا مگر اس میں ایک دن صرف ہوا۔
ضمیر الدین شاہ نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ اس وقت گجرات کے چیف سکریٹری چھٹیوں پر بیرون ممالک کی تفریح کررہے تھے جب کہ اتنی بڑی آفت کے وقت انہیں گجرات میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود ان کی چھٹی فوری طورپر رد نہیں کی گئی۔اس کی وجہ سے ریاستی حکومت سے تال میل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب فوج کسی سول علاقے میں مارچ کرتی ہے تو اس کی رہنمائی کیلئے آئی پی ایس سطح کے افسران موجود ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ فائرنگ کرنے اور حالات کو بہتر بنانے کیلئے ضروری اقدامات کرنے کیلئے مجسٹریٹ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔مگر ایک دن یہ فراہم نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ احمد آباد میں سابق مرکزی وزیر دفاع جارج فرنانڈیز بھی موجود تھے اور ان کے سامنے یہ تمام مسائل رکھے گئے تھے۔
ضمیرالدین شاہ نے کہا کہ 2مارچ کے بعد ہندوستانی افواج نے سرعت کے ساتھ حالات کو بہتر کیا۔اگر فوج وہاں تعینات نہیں ہوتی تو تباہی و ہلاکت کہیں زیادہ ہوسکتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کیمپوں کا دورہ کیا اور لوگوں کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی۔انہوں نے گجرات فسادات کے سیاسی محرکات پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولس کا کردار مشکوک تھا اور وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی اور فسادی کھلے عام مکانات اور دوکانوں کو نذر آتش کررہے تھے اور لوگوں پر حملے ہورہے تھے۔
ضمیرالدین شاہ نے بتایا کہ مشن امن مکمل ہونے کے بعد انہوں نے ہندوستانی افواج کی اعلیٰ قیادت کے سامنے ایک مکمل رپورٹ پیش کی تھی جس میں فسادات سے متعلق رپورٹ شامل تھی۔اس رپورٹ کو پاورپوائنٹ کے ذریعہ پرزینٹیشن بھی افسران کے سامنے پیش کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ گجرات فسادات کی جانچ کیلئے قائم ایس آئی ٹی اور دیگر کمیشنز نے انہیں طلب نہیں کیا۔جب کہ ان کمیشنز اور ایس آئی ٹی کی ذمہ داری تھی کہ مجھے عینی شاہد کے طور پر طلب کرتی کیونکہ میں نے ہندوستانی افواج کی قیادت کرتے ہوئے گجرات کے فساد زدہ علاقے میں امن و امان قائم کیا تھا۔
فسادات پھوٹنے کے تکنیکی اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گودھرا میں ٹرین آتشزدگی کے واقعے کے ہلاک شدگان کی لاشوں کو جلوس کی شکل میں احمد آباد پہنچایا گیا۔اس کی وجہ سے لوگوں کے جذبات بے قابو ہوگئے۔اسی طرح گودھرا ٹرین کے جلے ہوئے ڈبوں کو ہفتوں تک اسٹیشن پر رکھا گیا جب کہ میں نے ریلوے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ڈبوں کو فوری طور پر گودھرا اسٹیشن سے ہٹایا جائے۔انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ جلے ہوئے ڈبے کو ہفتوں اسٹیشن پر کیوں رکھا گیا؟۔اس کے علاوہ مہلوکین کی لاشوں کو جلوس کی شکل میں احمدآباد پہنچانے کا فیصلہ کن بنیاد پر کیا گیا اور یہ ضرروری کیوں تھامگر اگر یہ جلوس کی شکل میں نہیں پہنچاتا توشاید اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری نہیں ہوتی۔
مزید پڑھیں:Exclusive Interview with Nisar Ahmad Ansari: گجرات فسادات کے 20 برس مکمل، جمعیت علماء کی کارگزاری
ضمیرالدین شاہ نے کہا کہ 40سال تک انہوں نے ہندوستانی افواج کی خدمت کی ہے اور اس درمیان انہوں نے مختلف محاذوں پر ملک کیلئے کام کیا ہے۔مگر گجرات میں امن مشن ان کی زندگی کا سب سے مشکل ترین مشن تھا۔جہاں ہندوستانی اپنے بھائی کا اپنے ہاتھوں سے مذہبی تشدد کے نام پر قتل وغارت گری کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعدملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہزاروں جانیں تلف ہوئیں، مگر گجرات فسادات ان سب میں اس لئے الگ ہے کہ حکومت کی مشنریا ں ناکام ہوچکی تھیں اور وہ صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی تھی۔گجرات ہندو اور مسلمانوں کے نام پر منقسم ہوچکا تھا اور دونوں طبقوں کے درمیان شدید نفرت تھی۔ان کے بقول بعد کے سالوں میں بھی اس نفرت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
یواین آئی۔