صحافت ایک ایسا عظیم پیشہ ہے جس کا اپنا ایک الگ مقام اور اصول ہیں، سوشل میڈیا کا غلط استعمال کئے جانے سے جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والے شعبہ صحافت پر اثر پڑرہاہے،دور حاضر میں صحافت کی آڑ میں بلیک میلنگ،ڈرانے دھمکانے یہاں تک کہ معصوم خواتین کو جال میں پھنسا کر جنسی استحصال پر مجبور کرنے کے معاملات بھی منظر عام پر آرہے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال حال ہی میں دیکھنے کو ملی جب وسطی کشمیر کی ایک خاتون نے جنوبی ضلع اننت ناگ کے ایک خود ساختہ صحافی ندیم ناڈو پر مبینہ طور جنسی زیادتی، بلیک میلنگ کا الزام عائد کیا۔Srinagar Police arrests self proclaimed journalist Nadeem Nadu in rape Case
ندیم احمد گنائی عرف ندیم ناڈو ضلع اننت ناگ کے قاضی باغ سے تعلق رکھتا ہے،ندیم ناڈو قصبہ اننت ناگ میں ایک رسوئی گیس کی دوکان چلا رہا تھا تاہم کچھ دنوں بعد گیس کی دکان بند کرنے کے بعد ندیم نے کاسمیٹکس کی دکان کھول دی، دکانداری میں ناکامی کے بعد ندیم نے اننت ناگ کے ایک نجی اسکول میں بحیثیت ڈرائیور کام کرنا شروع کیا ،ندیم نے اس وقت معروف صحافی مرحوم مقبول ویرے کے ساتھ تعلقات بڑھائے جس کے بعد ندیم کو مقبول ویرے کے ویب پورٹل، سچ نیوز، میں کام کرنے کا موقعہ فراہم ہوا، اور اس طرح سے ندیم ناڈو نے بطور صحافی اپنی شناخت بنانا شروع کی، تاہم مقبول ویرے کے انتقال کے بعد ندیم ناڈو مقامی نیوز ایجنسی، گلوبل نیوز سروس (جی این ایس) کے ساتھ منسلک ہو گیا،ندیم ناڈو نے اپنی شناخت کو مزید بڑھانے کے لئے فیس بک پر اپنا ایک پیج قائم کیا اور آہستہ آہستہ اس کی پہنچ تقریباً 18 ہزار فالورس تک پہنچ گئی۔
حالانکہ ضلع اننت ناگ میں(اوجا) اننت ناگ ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی کے نام سے صحافیوں کی ایک ایسو سی ایشن قائم ہے، تاہم ندیم ناڈو کو ایسوسی ایشن کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی ایسوسی ایشن نے انہیں کبھی اننت ناگ میں ایک صحافی کے طور پر تسلیم کیا ،کیونکہ ذرائع کے مطابق ندیم ناڈو کے خلاف مبینہ طور اس سے پہلے بھی کئی شکایات تھیں۔
ندیم ناڈو کے کرتوتوں کا افشا ہونے کے بعد ایسوسی ایشن کے نائب صدر و عبوری صدر فیاض احمد لُو لُو و دیگر ممبران نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ندیم ناڈو کو اننت ناگ ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ کشمیر کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ اننت ناگ میں بھی فیس بک، یُو ٹیوب اور واٹس ایپ پر خودساختہ جرنلسٹ کی بھرمار ہے، جن میں بیشتر افراد بلیک میلنگ،قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرکے اس عظیم پیشہ کو بدنام کر رہے ہیں، جس سے پیشہ ور اور با وقار صحافیوں کی شبیہ بھی داغدار ہوتی ہے۔
اگرچہ انتظامیہ سے کئی بار ایسے خود ساختہ صحافیوں کی نکیل کسنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم اس پر غور نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے ایسے خود ساختہ جرنلسٹس کے حوصلے بلند ہیں اور ان کی تعداد آئے روز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں ندیم ناڈو کو سری نگر ڈسٹرکٹ پولیس نے 27 سالہ یونیورسٹی ٹیچر کی جانب سے عصمت دری، جنسی استحصال، بلیک میلنگ اور دھمکیوں کی شکایت درج کرنے کے بعد حراست میں لے لیا،اس کے خلاف ویمنز سیل پولیس اسٹیشن میں 30 ستمبر کو الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے،کئی روز بعد ندیم کا قریبی ساتھی سلمان شاہ بھی اننت ناگ سے گرفتار کیا گیا، جو ایک مقامی نیوز ایجنسی کے ساتھ منسلک تھا۔
سری نگر ڈسٹرکٹ پولیس کی طرف سے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ "خود ساختہ صحافی" ندیم احمد گنائی عرف ندیم ناڈو کو ریپ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پریس رلیز میں کہا گیا ہے کہ ندیم کے خلاف ایک لڑکی کی جانب سے شکایت درج کی گئی، جس نے الزام لگایا کہ ملزم نے اسے جولائی 2020 میں شالیمار کے قریب ناردرن فارشور روڈ پر واقع ایک گھر کے اندر دھوکہ دے کر نشہ آور شے پلا کر جنسی تعلقات پر مجبور کیا۔ ندیم نے اس کی قابل اعتراض تصویریں کھینچیں اور ان کا استعمال اسے کئی بار جبری جنسی تعلقات کے لیے بلیک میل کرنے کے لیے کیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ واردات کے وقت متاثرہ لڑکی وسطی کشمیر کے ایک ادارے میں طالبہ تھیں۔ وہ اس وقت اس کے جھانسے میں آگئی جب فیس بک پیج پر ندیم نے کووڈ19 لاک کے دوران ایک پوسٹ شائع کیا،جس میں اس نے لکھا تھا کہ ضرورت مند ان سے مدد طلب کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:Journalist Arrested on Rape Charges جنسی استحصال کے معاملہ میں ایک اور خود ساختہ صحافی گرفتار
ذرائع نے انکشاف کیا کہ شکایت کنندہ، جو 2020 میں ایک 25 سالہ طالبہ تھی اور اب وہ ایک یونیورسٹی میں جونیئر فیکلٹی کے عہدے پر فائز ہے، نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ندیم نے اسے اپنے دوستوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی پیشکش بھی کی گئی جس میں ایک سرکاری افسر بھی شامل ہے،یہی نہیں بلکہ متاثرہ کو بلیک میل کرکے اس سے پیسے بھی وصول کئے گئے-