ریاست کرناٹک کے اڈوپی کے ایک سرکاری پی یو کالج میں پرنسپل و کالج انتظامیہ کی جانب سے مسلم طالبات پر کلاس میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور تقریباً ایک مہینے سے 6 تا 8 لڑکیوں نے بطور احتجاج کلاسز کے باہر ہی رہ کر پڑھائی کی اور گھر لوٹ رہی تھیں۔ اب ان باحجاب لڑکیوں کو کالج کیمپس میں بھی داخلہ نہیں دیا جارہا ہے۔Girl Students Wearing Hijab Stopped at Entrance of Bhandarkar's College
حجاب کے معاملے کو لیکر ملک بھر میں تشویش و غصے کی لہر جاری ہے اس ضمن میں حیدرآباد کی مشہور و معروف سماجی کارکن خالدہ پروین نے کہا کہ حجاب پہننا ہمارا جمہوری حق ہے اس حق سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا ریاست کرناٹک کی حکومت حجاب کے معاملے کو سنجیدگی سے غور کریں اور طالبات کو حجاب پہننے کی سے نہ روکے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر آمنہ تحسین ڈیپارٹمنٹ آف وومن ایجوکیشن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کہا کہ یہ ملک گنگا جمنا تہذیب کا گہوارہ ہے اس ملک میں ہر مذہب کو اپنی آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی اس ملک آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ اور طلباء و طالبات پر کوئی پابندی عائد نہیں ہونا اچھا ہے یہ حجاب کے معاملے کو لے کر طلبہ کو ہراساں کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے ان طلبہ کی تعلیم پر اثر ہوگا۔
مزید پڑھیں:Udupi College Hijab Row: اڈوپی حجاب معاملہ، لڑکیاں اپنے حقوق کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں
اس ضمن میں حبا سہیل نے کہا کہ میں حجاب پہننا فخر سمجھتی ہو اور یہ خط اسلام اور دستور میں دیا ہے یہ حق کو کوئی نہیں چھین سکتا۔