افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے، امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو تسلیم کیا کہ جنگ زدہ ملک کی صورتحال میں امریکہ کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بدلاؤ آیا۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے اور افغان حکومت کے سقوط کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بائیڈن نے افغان رہنماؤں کو وہاں کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان رہنماؤں نے ہار مان لی اور ملک چھوڑ کر بھاگ گئے، جس کی وجہ سے فوج کا خاتمہ ہوا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کن حالات میں امریکی افواج کو افغانستان سے واپس بلایا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ہار گئے۔ ہم نے ہمیشہ صحیح فیصلے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے وہاں بہت پیسہ خرچ کیا ہے۔ ہم سوچتے تھے کہ یہاں حکومت اپنی فوج کے ساتھ سب سنبھال لے گی۔ ہمیں یہ کام افغانستان کے مستقبل کے لیے کرنا ہی تھا لیکن وہاں صورتحال تیزی سے بدلے اور کسی کو کوئی موقع نہیں ملا۔
انہوں نے کہا، میں اپنے فیصلے کے پیچھے کھڑا ہوں۔ 20 سال بعد میں نے مشکل طریقے سے سیکھا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کا کوئی اچھا وقت نہیں تھا اور اسی وجہ سے ہم اب بھی وہاں موجود ہیں۔
بائیڈن نے مزید کہا کہ دوسرے ممالک بھی طالبان کے قبضے سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بطور صدر مجھے فیصلے لینے پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ہم خطرے کے بارے میں پوری طرح واقف تھے۔ ہم نے ہر طرح کی صورتحال کے لیے منصوبہ بنایا تھا، لیکن یہ نتیجہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے سامنے آیا۔ افغانستان کے سیاسی رہنماؤں نے شکست تسلیم کر لی اور ملک سے بھاگ گئے، اس لیے فوج کے حوصلے ٹوٹ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:
Taliban Leader: طالبان کا اہم رہنما کون؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے نہیں چمٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اس طرح کے بحران کے درمیان اشرف غنی نے کوئی موقف کیوں اختیار نہیں کیا۔ وہ کیوں بھاگ گئے؟ اشرف غنی سے سوال پوچھے جانے چاہیے۔
واضح رہے کہ طالبان جنگجوؤں نے اتوار کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ اس سے قبل صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے اور کابل حکومت گر گئی۔
افغانستان کے بحران پر امریکہ کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکی فوجیوں کے انخلا پر شدید تنقید کا سامنا کرنے کے باوجود صدر اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔