ETV Bharat / bharat

بابری مسجد کی شہادت کی 28 ویں برسی آج

author img

By

Published : Dec 6, 2020, 7:29 AM IST

اترپردیش کے ایودھیا میں قائم بابری مسجد کو 6 دسمبر سنہ 1992 کو ہندو شدت پسند تنظیموں و کارسیوکوں کے ذریعے منہدم کر دیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھے تھے، بابری مسجد کی شہادت کی آج 28 ویں برسی ہے۔

بابری مسجد کی شہادت کی 28ویں برسی آج
بابری مسجد کی شہادت کی 28ویں برسی آج

بابری مسجد کا تنازع سب سے پہلے سنہ 1528 میں منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد سے دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیر التوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ لڑائی عدالت میں جاری رہی، اس دوران بابری مسجد نے کئی مراحل دیکھے، اسی مراحل کا ایک حصہ چھ دسمبر سنہ 1992 کا وہ دن ہے، جس دن تاریخی بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد ۔ رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اورمتنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا۔

اس معاملے میں اترپردیش کے الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ نے ستمبر 2010 میں فیصلہ سنایا تھا اور متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، سنہ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد سنہ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مانا تھا کہ مسجد، مندر کو منہدم کر کے نہیں تعمیر کی گئی ہے لیکن وہاں مندر ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں، اپنے فیصلے میں عدالت نے یہ بھی مانا تھا کہ مسجد کو مسمار کرنا غلط تھا۔

آپ کو بتا دیں کہ یہ تنازع 1528 میں شروع ہوا تھا جہاں بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ہندوؤن کا ماننا ہے کہ وہ مقام شری رام جنم بھومی ہے، بابری مسجد رام مندر کا یہ کیس کئی دہائیوں تک چلا اور آخر کار فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں اور مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا عدالت نے سنایا۔

اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو بھی سی بی آئی کی عدالت نے بری کر دیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

بابری مسجد کا تنازع سب سے پہلے سنہ 1528 میں منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد سے دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیر التوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ لڑائی عدالت میں جاری رہی، اس دوران بابری مسجد نے کئی مراحل دیکھے، اسی مراحل کا ایک حصہ چھ دسمبر سنہ 1992 کا وہ دن ہے، جس دن تاریخی بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد ۔ رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اورمتنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا۔

اس معاملے میں اترپردیش کے الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ نے ستمبر 2010 میں فیصلہ سنایا تھا اور متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، سنہ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد سنہ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مانا تھا کہ مسجد، مندر کو منہدم کر کے نہیں تعمیر کی گئی ہے لیکن وہاں مندر ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں، اپنے فیصلے میں عدالت نے یہ بھی مانا تھا کہ مسجد کو مسمار کرنا غلط تھا۔

آپ کو بتا دیں کہ یہ تنازع 1528 میں شروع ہوا تھا جہاں بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ہندوؤن کا ماننا ہے کہ وہ مقام شری رام جنم بھومی ہے، بابری مسجد رام مندر کا یہ کیس کئی دہائیوں تک چلا اور آخر کار فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں اور مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا عدالت نے سنایا۔

اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو بھی سی بی آئی کی عدالت نے بری کر دیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.