دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی کے سانحۂ ارتحال پر اپنے رنج و غم اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے معروف عالم دین اور رامپور کے مدرسہ فیض العلوم کے استاد حدیث مفتی محمد ساجد قاسمی نے کہا کہ 'مولانا عبد الخالق سنبھلی کی وفات ملت کا ایک بڑا خسارہ ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'مولانا کا نہایت بااخلاق ملنسار سادہ مزاج طلبا سے محبت کرنے والا انوکھا طرز تکلم درس کا البیلا انداز تھا۔ جو بھی ایک مرتبہ ملاقات کرلیتا وہ بہت دنوں تک یاد رکھتا۔ بات کرتے ہوئے ایسی انوکھی تعبیریں پیش فرماتے کہ سامنے والا دنگ رہ جاتا۔ لغات کی نرالے انداز میں تشریح فرماتے'۔
مفتی ساجد نے مزید کہا کہ 'مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ادیب زماں حضرت مولانا وحید الزمان صاحب کیرانوی کے خصوصی شاگرد تھے۔ ادب سے بہت گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سے الفوز الکبیر اور حسامی جیسی عظیم کتابیں پڑھیں۔ درس کے دوران کچھ باتیں اس طرح کی بیان کیں جو آج بھی من و عن یاد ہیں۔ ابھی جلد ہی حضرت مولانا اسلم جاوید القاسمی مہتمم مدرسہ فیض العلوم تھانہ ٹین کے حکم سے ماہ رجب 1442ھجری میں ملاقات ہوئی۔ حضرت نے گھر پر بہت ساری باتیں کیں، ابتدائی دور کا ذکر کیا اپنے دارالعلوم دیوبند میں تقرر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ والدین نے اسے بھی بہت دور بتایا تھا نیز درسگاہ میں گفتگو کے انداز پر مجھ جیسے طالب علم سے بے تکلف گفتگو فرمائیں اور رخصت کے وقت ڈھیروں دعائیں دیں'۔
یہ بھی پڑھیں:ایک شاعر: ڈاکٹر شگفتہ غزل ایک ممتاز شاعرہ
مولانا سلمان ندوی سے یوپی اسمبلی انتخابات سے متعلق خاص بات چیت
ایک شاعر: لکھنؤ کی کم عمر انگریزی شاعرہ فارہ ندیم سے خصوصی گفتگو
انہوں نے کہا کہ کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ آخر میں مفتی ساجد قنوجی نے اپنے دعائیہ کلمات میں کہا کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے۔ درجات عالیہ میں جگہ عطا فرمائے۔ پسماندگان متوسلین اور شاگردوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو نعم البدل عطا فرمائے۔