اننت ناگ: دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں تقریبا ایک برس تک سیاسی سرگرمیاں بند رہیں۔ اس کے بعد تھری ٹائر سسٹم کو مضبوط بنانے کی پہل ہوئی اور کافی حد تک جموں و کشمیر انتظامیہ اس سسٹم کو نافذ کرنے میں کامیاب بھی رہی۔ جموں و کشمیر پنچائیتی ایکٹ 1989 میں ترمیم کر کے ضلع ترقیاتی کونسل کی نشستیں شامل کی گئیں اور جموں و کشمیر میں پہلی مرتبہ ڈی ڈی سی انتخابات منعقد ہوئے۔ اس سے قبل پنچایتی اور بلاک سطح (بی ڈی سی) کے انتخابات منعقد کئے گئے تھے۔ جموں کشمیر کے ہر ضلع کے لیے 14 ڈی ڈی سی نشستیں شامل کی گئیں۔ ایک ضلع کو 14 کنسٹی ٹیوشنل ٹیریٹریز میں تقسیم کیا گیا جب کہ کونسلرز کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوا۔ Mixed reactions over three tier system after abrogation of 370
حکومت کا دعویٰ تھا کہ جموں و کشمیر میں پنچایتی راج سسٹم اتنا مضبوط نہیں تھا، اس لیے یہاں تھری ٹائر سسٹم کو نافذ کرنا لازمی ہے۔ پنچ، سرپنچ، ڈی ڈی سی اور بی ڈی سی کے ممبران اور چیئرمین کا زمینی سطح کی جمہوریت کو مضبوط کرنےکا اہم رول ہوگا۔ ضلع کی ترقی کے لئے اب صرف ڈی ڈی سی ذمہ دار نہیں ہوگا، بلکہ عوام کے براہ راست منتخب ہوئے نمائندے اس میں اہم کردار نبھائیں گے۔
حکومت نے تھری ٹائر سسٹم کو تو نافذ کیا لیکن پنچایتی راج انسٹی ٹیوشن سے وابستہ بیشتر لوگوں کی شکایت ہے کہ انہیں با اختیار بنانا صرف کاغذوں تک محدود ہے، مگر زمینی سطح پر وہ افسر شاہی کے شکار ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی عمل آوری کے لئے ان کے ساتھ مشاورت نہیں کی جاتی ہے، اس سلسلہ میں کئی بار پنچایتی راج سے جڑے اراکین نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بھی کئے۔ ضلع ترقیاتی کونسل اننت ناگ کے چیئرمین محمد یوسف گورسی کا کہنا ہے کہ تھری ٹائر سسٹم نافذ ہونے سے جموں کشمیر کے شہر و دیہات میں ترقی ہو رہی ہے، انہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ انسٹی ٹیوشن سے جڑے ہر ایک رکن کو با اختیار بنایا جا رہا ہے۔
وہیں ضلع اننت ناگ کے باشندگان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ان کے علاقہ میں بنیادی سہولیات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی کوششیں کی گئیں، جس سے عوام کو کافی حد تک راحت مل گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقہ میں سڑکیں اور بجلی کا نظام خستہ ہو چکا تھا تاہم اب ان مسائل کا ازالہ کیا گیا۔ وہیں گجر بکروال طبقہ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح انہیں جھوٹے خواب دکھا کر ان سے ووٹ حاصل کئے گئے، جبکہ انتخابات کے بعد انہیں قدرت کے سہارے چھوڑ دیا گیا۔
مزید پڑھیں:۔ Local Officers Sidelined in Kashmir: خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد کشمیری افسران اہم عہدوں سے غائب
یقینی طور جموں و کشمیر کی مین اسٹریم جماعتوں کو اب یہ امید تھی کہ یہاں اب انتخابات ہونگے اور اسمبلی بحال ہوگی جس کے بعد جموں و کشمیر کے مسائل حل ہوں گے۔ تاہم حالیہ دنوں چیف الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر مقامی باشندوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے کر یہاں کے سیاسی رہنما پھر سے ایک بار تذبذب کا شکار ہوئے ہیں اور سیاسی رہنماوں کی جانب سے مختلف بیان بازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دسمبر سنہ 2021 میں جموں و کشمیر میں ڈی ڈی سی کے انتخابات منعقد کرائے گئے۔ ان انتخابات میں جموں و کشمیر کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلز آلائنس فار گپکار ڈیکلریشن نے حصہ لیا۔ 370 کی منسوخی کے ایک برس بعد یہاں کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے آرٹیکل 370 و 35 اے کو واپس دلانے کے لیے یہ اتحاد قائم کیا گیا۔گپکار آلائنس نے ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا اصل منشور بی جے پی کو شکست دینا تھا۔ تاکہ مودی حکومت قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر نہ دے سکے کہ یہاں کی عوام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے والے فیصلے سے خوش ہے۔
بی ڈی سی انتخابات کے وقت تمام مین سٹریم سیاسی قیادت نظر بند تھیں اور ان کا اس وقت کوئی سیاسی کردار نہیں تھا، کیونکہ انہوں نے الیکشن سے بائیکاٹ کیا تھا۔اس وقت صرف بی جے پی میدان میں تھی۔اس سے یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ شاید بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوگی۔ تاہم اکیلے میدان میں ہونے کے باوجود بھی بی جکے پی کو 310 نشستوں میں صرف 81 نشستیں حاصل ہوئیں باقی تمام پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں جموں کشمیر میں مین اسٹریم سیاسی قیادت کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور یہاں کا سیاسی بدلاؤ یُو ٹی کے لئے کتنا سود مند ثابت ہوگا؟