نئی دہلی: ملک کے موجودہ حالات اور مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے رویے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ایک طرف جہاں مذہبی شدت پسندی کو ہوادینے اور عوام کے ذہنوں میں منافرت کا زہر بھرنے کا مذموم سلسلہ پورے زوروشورسے جاری ہے، وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو تعلیمی اورسیاسی طورپر بے حیثیت کردینے کے خطرنا ک منصوبہ کابھی آغاز ہو چکا ہے۔ مولانا مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا ایک انتہائی اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ Arshad Madani On Injustice and Discrimination
انہوں نے کہاکہ پچھلے چند برسوں کے دوران ملک کی اقتصادی اورمعاشی حالت حددرجہ کمزورہوئی ہے اوربے روزگاری میں خطرناک حدتک اضافہ ہوچکاہے مگراس کہ باوجود اقتدارمیں بیٹھے لوگ ملک کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور اس مہم میں جانبدارمیڈیا ان کاکھل کرساتھ دے رہاہے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور بے روزگاری کے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوادیا جارہا ہے۔ مولانا مدنی نے آگے کہاکہ مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ بنیادپر عوام کو تقسیم کرنے کا یہ کھیل ملک کو تباہ کردے گا، مذہب کا نشہ پلاکربہت دنوں تک حقیقی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا، روٹی،کپڑااورمکان انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اس لئے منافرت کی سیاست کو بڑھاوادینے کی جگہ اگر روزگارکے وسائل نہیں پیداکئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں تووہ دن دورنہیں کہ جب ملک کی نوجوان نسل سراپااحتجاج ہوکر سڑکوں پر نظرآئے گی۔
آسام مدھیہ پردیش اوراتراکھنڈریاستوں میں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی منصوبہ بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ آسام میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں جہاں سوسوسال سے بسنے والی مسلم بستیوں کواجاڑاجارہا ہے وہیں مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں مہاکبھ کے پیش نظر ایک پارکنگ کی تعمیر کے لئے مسلمانوں کو بے گھر کردینے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے، جبکہ اتراکھنڈکے ہری دوار میں ریلوے ٹریک کو چوڑاکرنے کی آڑمیں 43سومسلم اورکچھ غیرمسلم خاندانوں کو بے گھر کردینے کی مہم شروع ہوچکی ہے ہر چند کے سپریم کورٹ نے عبوری اسٹے دیا ہے لیکن خطرہ بدستور برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا انصاف ہے کہ دہائیوں سے آبادلوگوں کو بے گھر کردیاجائے، انہیں مناسب معاوضہ بھی نہ دیاجائے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے متبادل زمین بھی مہیانہ کی جائے۔
ملک میں تیزی سے پھیل رہے ارتدادکے فتنہ کو خطرناک قراردیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اسے منصوبہ بند طریقہ سے شروع کیا گیا ہے،جس کے تحت ہماری بچیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے، اگر اس فتنہ کو روکنے کے لئے فوری موثرتدبیر نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال دھماکہ خیز ہوسکتی ہے، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اس فتنہ کو مخلوط تعلیم کی وجہ سے تقویت مل رہی ہے اورہم نے اسی لئے اس کی مخالفت کی تھی، اورتب میڈیا نے ہماری اس بات کو منفی اندازمیں پیش کرتے ہوئے یہ تشہیر کی تھی کہ مولانا مدنی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، جبکہ ہم مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں۔ مولانا مدنی نے کہاکہ ملت کی فلاح وبہبوداور ان کی تعلیمی ترقی کے لئے اب جو کچھ کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہاکہ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے انتہائی نازک موڑپر آکھڑے ہوئے ہیں،ہمیں ایک طرف اگر طرح طرح کے مسائل میں الجھایا جارہا ہے تودوسری طرف ہم پر اقتصادی، سماجی، سیاسی اورتعلیمی ترقی کی راہیں بندکی جارہی ہیں، اس خاموش سازش کو اگر ہمیں ناکام کرنا ہے اورسربلندی حاصل کرنا ہے توہمیں اپنے بچوں اوربچیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے خودقائم کرنے ہوں گے۔
انہوں نے آخرمیں کہاکہ قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ ہردورمیں ترقی کی کنجی تعلیم رہی ہے، اس لئے ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگابلکہ ان کے اندرسے احساس کمتری کو باہر نکال کر ہمیں انہیں مسابقتی امتحانات کے لئے حوصلہ دینا ہوگا اورہم اسی صورت سے اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا منہ توڑجواب دے سکتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ ردعمل اورجذباتی سیاست کی بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں، اگر فسطائی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ ان کے اس جبر و ظلم کے آگے مسلمان سرنگوں ہوجائیں گے اور وطن عزیز میں وہ ان کی غلامی اور جبر کی زنجیروں میں بندھ جائیں گے، تویہ ان کی خام خیالی ہے، ہندوستان ہمارا ملک ہے، اس ملک میں ہم پیداہوئے ہیں اور اس کی فضاؤں میں ہم پروان چڑھے ہیں، ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو نہ صرف مضبوط و مستحکم کیا ہے بلکہ اس کے تحفظ و بقاکے لئے اپنی جانیں تک قربان کی ہیں، اس لئے ہم ملک میں مسلمانوں یا کسی بھی طبقہ کے ساتھ نا انصافی اور امتیازی برتاؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شاملشرکاء نے ملک کی موجودہ صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی امن و قانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے امن واتحاد اور یگجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، فرقہ پرست طاقت کے ذریعہ آئین و قانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تار تارکررہی ہے اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور عصری تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار نیز دفتری و جماعتی امور پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔
اجلاس میں مختلف معاملوں کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی جو مقدمات لڑرہی ہے ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا ان مقدمات میں آسام میں شہریت اورملک میں مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کوبرقراررکھے جانے والے زیرسماعت اہم مقدمات بھی شامل ہیں،آسام شہریت کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو این آرسی کروائی ہے اس کی بنیاد1971ہے، اگر خدانخواستہ 1951کو بنیادبنایا گیا تو ایک بارپھرآسام کے لاکھوں لوگوں کی شہریت پر خطرہ منڈلانے لگے گا۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ 10 /جنوری کوسماعت کریگی، اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند ایک اہم فریق ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل،سلمان خورشید، اندرا جئے سنگھ اورایڈوکیٹ آن ریکارڈفضیل ایوبی پیش ہونگے۔
اسی طرح عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر سپریم کورٹ 9 /جنوری کوسماعت کریگی، جمعیۃ علماء ہند پٹیشن داخل کرکے 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کی حفاظت کی عدالت سے درخواست کی ہے۔طویل غوروخوض کے بعد طے پایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا اجلاس بہارکی دارالحکومت پٹنہ میں کیاجائے گا، اس کے لئے25/24/فروری کی تارخیں مقررکی گئی ہیں جبکہ 26 /فروری کو اجلاس عام منعقد ہوگا، ناداراورضرورت مند طلباء کو دی جانے والی اسکالرشپ کو طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک کروڈ سے بڑھا کر اس سال دوکروڑ روپے کردی گئی ہے۔توقع ہے کہ ہم اپنی مجوزہ بجٹ سے زیادسے زیادہ ضرورت مند بچوں تک اپنی مالی تعاون پہنچاسکیں گے
اجلاس میں صدرجمعیۃکے علاوہ مفتی معصوثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند، مولانا سیداسجد مدنی، مولاناسیداشہد رشیدی،مفتی غیاث الدین حیدرآباد، مولانا مشتاق عنفر آسام، مولانا بدراحمد مجبیبی پٹنہ، مولاناعبداللہ ناصربنارس،قاری شمس الدین کلکتہ، مفتی اشفاق احمد اعظم گڑھ،حاجی سلامت اللہ دہلی، ایڈوکیٹ فضیل ایوبی دہلی، مولانا فضل الرحمن قاسمی،کے علاوہ بطورمدعوئین خصوصی مولانا محمد مسلم قاسمی دہلی، مولانا محمد راشد راجستھان، مولانا محمد خالد ہریانہ، مولانا مکرم الحسینی بہار،مولانا حلیم اللہ قاسمی ممبئی، شاہد ندیم ایڈوکیٹ ممبئی، مولانا عبدالقیوم مالیگاؤں، مفتی حبیب اللہ جودھپور،وغیرہ شریک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: Amanat Ullah Meets Madni امانت اللہ خان نے مولانا ارشد مدنی سے ملاقات کی
یو این آئی