ETV Bharat / bharat

درجنوں کشمیری طلباء پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ حالات کے شکار - پاکستان کے ایک میڈیکل کالج

درجنوں کشمیری طلباء گزشتہ سالوں سے پاکستان کے مختلف کالجوں میں میڈیکل، انجینئرنگ یا دیگر تعلیم حاصل کرنے کے کئے گئے تھے۔ لیکن گزشتہ برسوں سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ صورتحال کی وجہ سے یہ طلباء ان حالات کے لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔

درجنوں کشمیری طلباء پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ حالات کے شکار
درجنوں کشمیری طلباء پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ حالات کے شکار
author img

By

Published : Aug 19, 2021, 7:22 PM IST

وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلباء جو پاکستان میں زیر تعلیم ہیں گزشتہ ایک سال سے حکومت کی اجازت نہ ملنے پر درماندہ پڑے ہیں اور اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے لئے پریشان ہیں۔

دراصل درجنوں کشمیری طلباء گزشتہ سالوں سے پاکستان کے مختلف کالجوں میں میڈیکل، انجینئرنگ یا دیگر تعلیم حاصل کرنے کے کئے گئے تھے۔ لیکن گزشتہ برسوں سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ صورتحال کی وجہ سے یہ طلباء ان حالات کے لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔

شمالی کشمیر کے منظور احمد پاکستان کے ایک میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بننے کے لئے گئے تھے اور اس سال انکو ڈگری کی سند ملنے والی تھی لیکن سرکار کی طرف سے انکو پاکستان جانے کی اجازت نہیں مل پا رہی ہے جس سے یہ اپنے مستقبل کے لئے شدید پریشان ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سے اجازت نہ ملنے پر انکا مستقبل مخدوش ہورہا ہے جبکہ انہوں تقریباً دس لاکھ روپے اپنی تعلیم پر خرچ کئے ہے۔

درجنوں ایسے طلباء ہیں جو رواں برس مارچ میں پاکستان اور بھارت سرحد پر اٹاری کے مقام پر دیگر سینکڑوں مسافروں کے ساتھ جمع ہوئے تھے اور اپنی تعلیم کے لئے پاکستان جانا چاہتے تھے لیکن امیگریشن افسران نے تقریباً 80 طلباء کو وہاں جانے سے روک دیا۔

طلباء کا کہنا ہے کہ گھریلو مالی حالت کے سبب انہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دی تھی۔ تاہم سیکورٹی کے وجوہات اور دیگر خدشات کی وجہ سے ان طلباء نے کیمرے کے سامنے آنے سے منع کیا ہے۔

انکے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم بنگلہ دیش یا ملک کے دیگر نجی کالجوں میں کم خرچے پر مکمل حاصل ہوتی ہے۔

انکا کہنا ہے کہ امیگریشن نے انکو وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ محکموں سے اجازت حاصل کرنے کے لئے کہا لیکن ان محکموں نے بغیر وجہ کے انہیں التوا میں رکھا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بدھ کو جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ پولیس نے چار افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے لیے حریت کے ذریعے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی خرید و فروخت کا الزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی فنڈنگ سے متعلق ایک پردہ فاش کیا گیا ہے جس میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستان میں ایم بی بی ایس کروانے کی خاطر حریت کے ذریعے جموں وکشمیر کے طلباء کےلیے میڈیکل سیٹیں خریدی جاتی تھیں۔

اس سے قبل بھی دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے پچاس نوجوان پاکستان تعلیم حاصل کرنے کے بہانے عسکریت پسند بن گئے ہیں جن میں سے چند واپس آنے پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ چھڑیوں میں ہلاک کئے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حریت کے ذریعے پاکستان میں میڈیکل سیٹوں کے نظم پر پولیس کا ہاتھ


ان ناخوشگوار حالات کی زد میں وہ طلباء بھی آئے ہوئے ہیں جو باضابطہ طور ویزا حاصل کرکے پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

ان طلباء کے مسئلہ پر طلباء کارکن ناثر کہوہامی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہوں یہ مسئلہ وزارت داخلہ اور جموں و کشمیر کے ایل جی کے سامنے ایک میمورنڈم کے بطور پیش کیا ہے، لیکن ابھی اس پر کوئی پیش رفت دیکھنی کو نہیں مل رہی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدہ حالات کشمیری طلباء، جو جائز طریقے سے پاکستان تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں، کے لئے کیوں مصیبت بن جائے۔

وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلباء جو پاکستان میں زیر تعلیم ہیں گزشتہ ایک سال سے حکومت کی اجازت نہ ملنے پر درماندہ پڑے ہیں اور اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے لئے پریشان ہیں۔

دراصل درجنوں کشمیری طلباء گزشتہ سالوں سے پاکستان کے مختلف کالجوں میں میڈیکل، انجینئرنگ یا دیگر تعلیم حاصل کرنے کے کئے گئے تھے۔ لیکن گزشتہ برسوں سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ صورتحال کی وجہ سے یہ طلباء ان حالات کے لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔

شمالی کشمیر کے منظور احمد پاکستان کے ایک میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بننے کے لئے گئے تھے اور اس سال انکو ڈگری کی سند ملنے والی تھی لیکن سرکار کی طرف سے انکو پاکستان جانے کی اجازت نہیں مل پا رہی ہے جس سے یہ اپنے مستقبل کے لئے شدید پریشان ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سے اجازت نہ ملنے پر انکا مستقبل مخدوش ہورہا ہے جبکہ انہوں تقریباً دس لاکھ روپے اپنی تعلیم پر خرچ کئے ہے۔

درجنوں ایسے طلباء ہیں جو رواں برس مارچ میں پاکستان اور بھارت سرحد پر اٹاری کے مقام پر دیگر سینکڑوں مسافروں کے ساتھ جمع ہوئے تھے اور اپنی تعلیم کے لئے پاکستان جانا چاہتے تھے لیکن امیگریشن افسران نے تقریباً 80 طلباء کو وہاں جانے سے روک دیا۔

طلباء کا کہنا ہے کہ گھریلو مالی حالت کے سبب انہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دی تھی۔ تاہم سیکورٹی کے وجوہات اور دیگر خدشات کی وجہ سے ان طلباء نے کیمرے کے سامنے آنے سے منع کیا ہے۔

انکے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم بنگلہ دیش یا ملک کے دیگر نجی کالجوں میں کم خرچے پر مکمل حاصل ہوتی ہے۔

انکا کہنا ہے کہ امیگریشن نے انکو وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ محکموں سے اجازت حاصل کرنے کے لئے کہا لیکن ان محکموں نے بغیر وجہ کے انہیں التوا میں رکھا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بدھ کو جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ پولیس نے چار افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کے لیے حریت کے ذریعے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی خرید و فروخت کا الزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی فنڈنگ سے متعلق ایک پردہ فاش کیا گیا ہے جس میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستان میں ایم بی بی ایس کروانے کی خاطر حریت کے ذریعے جموں وکشمیر کے طلباء کےلیے میڈیکل سیٹیں خریدی جاتی تھیں۔

اس سے قبل بھی دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے پچاس نوجوان پاکستان تعلیم حاصل کرنے کے بہانے عسکریت پسند بن گئے ہیں جن میں سے چند واپس آنے پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ چھڑیوں میں ہلاک کئے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حریت کے ذریعے پاکستان میں میڈیکل سیٹوں کے نظم پر پولیس کا ہاتھ


ان ناخوشگوار حالات کی زد میں وہ طلباء بھی آئے ہوئے ہیں جو باضابطہ طور ویزا حاصل کرکے پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

ان طلباء کے مسئلہ پر طلباء کارکن ناثر کہوہامی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہوں یہ مسئلہ وزارت داخلہ اور جموں و کشمیر کے ایل جی کے سامنے ایک میمورنڈم کے بطور پیش کیا ہے، لیکن ابھی اس پر کوئی پیش رفت دیکھنی کو نہیں مل رہی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدہ حالات کشمیری طلباء، جو جائز طریقے سے پاکستان تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں، کے لئے کیوں مصیبت بن جائے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.