ادھر متاثرہ کے کنبہ سے ملنے کے لیے میڈیا والے اور لیڈران بضد ہیں ۔ نوک جھونک اور بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ نے گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو دوپہر بعد گاؤں کی بیریکیڈنگ بھی کردی گئی۔
جب میڈیا والوں نے پوچھا کہ آخر کس کے حکم سے ہمیں روک رہے ہو؟ پولیس والوں کے پاس بس اس کا ایک ہی جواب تھا 'اوپر سے حکم ہے، گاؤں میں نہیں جانے دے سکتے'۔
صبح جب اے ڈی ایم سے میڈیا والوں نے سوالات کیے تو وہ چلے گئے۔ آخر ہاتھرس کی اس قلعہ بندی کی وجہ کیا ہے؟ حکومت گاؤں میں میڈیا کے جانے سے اتنا کیوں خوف ہے؟ ان سوالوں پر اعلیٰ افسران خاموش ہیں۔ یوگی حکومت کے وزیر بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
یوگی حکومت کے حکم کے بعد پولیس نے متاثرہ کے گاؤں جانے والے سارے راستے کو بند کردیا ہے۔ وہاں میڈیا کو بھی نہیں جانے دیا جارہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کو بھی جانے سے روکا جارہا ہے۔ گاؤں میں بھی کسی کو بھی انٹری نہیں دی جارہی ہے۔
ہاتھرس پولیس نے میڈیااہلکاروں اور سیاستدانوں سمیت دیگر لوگوں کو متاثرہ کے گاؤں جانے کی انٹری جمعرات کو ہی بند کردی تھی۔ گاؤں میں سخت پہرا لگادیا گیا ہے۔
گاؤں میں بھاری پولیس فورس تعینات کیا گیا ہے۔ کسی بھی گاؤں والوں کو گاؤں کے باہر جانے اور باہر سے کسی کو بھی گاؤں میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ میڈیا کو گاؤں سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر دور ہی روکا جارہا ہے۔
ٹی ایم سی رکن پارلیمان ڈیرک او برائن کی قیادت میں پارٹی کا ایک وفد کو ہاتھرس سرحد پر روک دیا گیا ہے وہ متاثرہ کے کنبہ سے ملنے جارہے تھے۔ اسی درمیان دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ہاتھرس کی واردات کو کافی جھنجھوڑ دینے والا بتایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح متاثرہ کنبہ سے ریاستی حکومت پیش آرہی ہے وہ انتہائی غلط ہے۔
جمعہ کو میڈیا نے جب متاثرہ کے کنبہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو کنبہ کے ہر ممبر کا موبائل بند تھا۔ کافی کوشش کے بعد بھی سب کے موبائل بند ملے۔ میڈیا میں خبر پھیلتے ہی جب انتظامیہ سے اس معاملے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب پر ٹال مٹول کردیا۔
کچھ دیر بعد متاثرہ کے بھائی کا موبائل سوچ آن ہوا لیکن مسلسل فون ملنے کے بعد بھی وہ کسی کا فون نہیں اٹھارہا ہے۔
میڈیا رپورٹس ہے کہ پولیس انتظامیہ نے متاثرہ کےگھر والوں پر ہہرا سخت کردیا ہے کسی کو موبائل پر بھی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی گھر والا میڈیا سے بات نہیں کرسکتا ہے۔
یاد رکھے کہ جمعرات کو ڈی ایم پروین کمار متاثرہ کے گھر گئے تھے۔ یہاں انہوں نے متاثرہ کے باپ سے بات کی اور انہیں باتوں باتوں میں دھمکی دی تھی۔ وائرل ویڈیو میں وہ کہتے ہوئے نظر آرہے تھے کہ آپ اپنی اعتماد ختم مت کرو۔ یہ میڈیا والے میں آپ کو بتا دوں، آدھے آج چلے گئے، اور آدھے کل چلے جائیں گے ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو بار بار بیان بدلنا ہے کہ نہیں بدلنا ہے۔ کبھی ہم بھی بدل جائیں۔
وہیں اس ویڈیو کے علاوہ متاثرہ کی بھابھی کا الزام ہےکہ یہاں بول رہے ہیں کہ تمہاری لڑکی کورونا سے مر جاتی تو تم کو معاوضہ مل پاتا۔ پاپا کو دھمکی دی جارہی ہے ۔ سب دھمکیاں مل رہی ہیں۔ یہ لوگ ہمیں یہاں رہنے نہیں دیں گے۔ ڈی ایم زیادہ چال بازی کررہے ہیں۔ یہ ہم لوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ڈی ایم کی دھمکی والا ویڈیو کنبہ کے کسی شخص نے اپنے موبائل سے بنایا اور سوشل میڈیا میں وائرل کردیا۔ کہا جارہا ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس انتظامیہ اور بوکھلا گئی ہے اور اب کنبہ کا موبائل بند کرادیا گیا ہے۔ تاکہ وہ کسی بھی میڈیا اہلکار سے بات نہیں کرسکیں ۔