ETV Bharat / bharat

علامہ اقبال کا کلام اتحاد امت کا درس دیتا ہے

author img

By

Published : Apr 21, 2022, 2:30 PM IST

Updated : Apr 21, 2022, 3:44 PM IST

علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ 'آج کل قومِ مسلم انتشار کا شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اور یہ بہترین وقت ہے کہ نوجوان حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی فکر کا مطالعہ کریں۔ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی غلامی کی ہر شکل سے نجات کا نسخہِ کیمیا ہے۔ آج شاعر مشرق کی 84ویں برسی ہے۔ Allama Iqbal's Poetry

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال

حکیم الاُمت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے شاہین، خودی، مرد مومن، عقل و عشق اور وطنیت و قومیت کا تصور اور فلسفہ انتہائی مدلل و منفرد انداز میں پیش کر کے اپنے خیالات کو زندہ و جاوید بنا دیا۔ اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقریری و تحریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

علامہ ڈاکٹر اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر، مصنف، قانون داں، سیاستداں اور تحریک پاکستان کے اہم ترین قائدین میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر اقبال اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں ان کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ انہوں نے 'دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ اِن اسلام' کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ ڈاکٹر اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ آج شاعر مشرق کی 84ویں برسی ہے۔ اس مناسبت سے ای ٹی وی بھارت کی یہ خصوصی رپورٹ پیش خدمت ہے۔ The Reconstruction of Religions Thought in Islam

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

نوجوانوں کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرنے والے اس شعر کے خالق، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نو نومبر سنہ 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے جبکہ وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی تھی۔ علامہ اقبال نے اس طرح کے بہت سے اشعار کہے ہیں جس سے وہ نوجوانوں کے اندر خودی، اسلامی فکر اور وسعت نظر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں میں انسانی روح بیدار کرنے والے مفکرِ اسلام، شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ملک بھر سمیت دنیا بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور دعوت عمل دی۔ مفکر پاکستان نے شاہین کا تصور اور خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ فرقہ واریت، نظریاتی انتہا پسندی اور نئے اجتماعی گروہوں کی تشکیل جیسے معاملات پر اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر تھے
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر تھے

علامہ اقبال کی وفات کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقریری اور تحریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' اور 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے ہیں جب کہ 'شکوہ اور جواب شکوہ' جیسی ان کی نظموں نے خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعوں میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔

علامہ محمد اقبال کی ابتدائی تعلیم: علامہ محمد اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور پھر لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے 1899 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ علامہ اقبال 1905 میں برطانیہ چلے گئے جہاں پہلے انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا اور پھر معروف تعلیمی ادارے لنکنزاِن میں وکالت کی تعلیم لینا شروع کردی بعد ازاں بعد وہ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے انھوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران شاعری بھی جاری رکھی۔ وطن واپسی کے بعد آپ وکالت کے پیشے سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوئے، علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی سے ہوچکا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں مگر وہ پاکستان کی صورت میں اپنے خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھلتا نہ دیکھ سکے اور 21 اپریل 1938 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

علامہ محمد اقبال کی شاعری: اردو اور فارسی میں شاعری علامہ اقبال کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ انہوں نے پاکستان کا تصور پیش کر کے اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی امید پیدا کی۔ مسلمانان ہند کے لیے الگ وطن کا خواب دیکھنے والے اقبال قیامِ پاکستان سے پہلے ہی چل بسے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 1938 کو ہوا۔ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال حکیم الامت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے فکر و فلسفہ کے ذریعہ امت واحدہ کی نبوی تعلیم کو اجاگر کیا۔ امت مسلمہ کے زوال میں باہمی تقسیم اور انتشار ہی مرکزی کردار ہے۔ آج بھی اگر امت اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ ایک کتاب جس کا نام قرآن مجید ہے اس پر جمع ہوجائیں۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بطورِ سیاستداں: بحیثیت سیاستداں ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

مسلمانوں کے لیے اسلامی ملک کا خواب علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزاد ریاست کے خیال کو جنم دیا تھا۔ ان کے الفاظ میں یہ طاقت تھی کہ انہوں نے امّت مسلمہ کو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور آزادی کے لیے قدم آگے بڑھانے کی ترغیب دی۔ علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جداگانہ قومیت کا احساس اُجاگر کیا اور اپنی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ اُن کے افکار اور سوچ نے اُمید کا وہ چراغ روشن کیا جس نے نا صرف منزل بلکہ راستے کی بھی نشاندہی کی۔ ان کے الفاظ میں قومِ مسلم میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک الگ ہی جوش تھا۔ وہ قومِ مسلم میں انقلاب اور اسلامی روح پھونکنے کے لیے بڑے بے چین رہتے تھے۔ یہ شعر ان کے ذہن کی مکمل ترجمانی کرتا ہے:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

علامہ محمد اقبال کے کلام میں اتحاد امت کا درس: علامہ اقبال کا کلام اتحاد امت کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے شاعری کے ذریعے قوم کی تربیت کی اور انہیں خود آگاہی کا درس دیا۔ آج کل قومِ مسلم انتشار کا شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اور یہ بہترین وقت ہے کہ نوجوان حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی فکر کا مطالعہ کریں۔ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی غلامی کی ہر شکل سے نجات کا نسخہِ کیمیا ہے۔ انہوں نے کہا۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ محمد اقبال کے تصورات و نظریات: انہوں نے تصورات اور نظریات کے ذریعہ ایسا کام کیا جو برسوں تک یاد رکھا جائے گا اور اس کا فائدہ مسلم قوم کو صدیوں تک ملتا رہے گا۔ ان کے انتہائی مشہور تصورات و نظریات درج ذیل ہیں۔

  1. خودی
  2. عقل و عشق
  3. مردِ مومن
  4. وطنیت و قومیت
  5. اقبال کا تصورِ تعلیم
  6. اقبال کا تصورِ عورت
  7. اقبال اور مغربی تہذیب
  8. اقبال کا تصورِ ابلیس
  9. اقبال اور عشقِ رسول

علامہ محمد اقبال کی وفات

علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق 20 صفر المصفر 1357ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث لاہور میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ امت مسلمہ کے لیے ان کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں نا صرف بھارت و پاکستان بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں ان کے نام سے شاہراہیں موسوم کی گئی ہیں۔ ان کو لاہور ہی میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ یاد رہے کہ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے 21 اپریل سنہ 1938 کو لاہور میں وفات پائی تھی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں موجود پیغام نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحرک اور فعال بنایا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس دنیا سے رحلت کیے ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے لیکن ان کی نظریاتی ہمہ گیریت کا اعتراف گزرتے وقت کے ساتھ مزید بڑھتا ہی جارہا ہے۔

حکیم الاُمت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے شاہین، خودی، مرد مومن، عقل و عشق اور وطنیت و قومیت کا تصور اور فلسفہ انتہائی مدلل و منفرد انداز میں پیش کر کے اپنے خیالات کو زندہ و جاوید بنا دیا۔ اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقریری و تحریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

علامہ ڈاکٹر اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر، مصنف، قانون داں، سیاستداں اور تحریک پاکستان کے اہم ترین قائدین میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر اقبال اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں ان کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ انہوں نے 'دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ اِن اسلام' کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ ڈاکٹر اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ آج شاعر مشرق کی 84ویں برسی ہے۔ اس مناسبت سے ای ٹی وی بھارت کی یہ خصوصی رپورٹ پیش خدمت ہے۔ The Reconstruction of Religions Thought in Islam

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

نوجوانوں کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرنے والے اس شعر کے خالق، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نو نومبر سنہ 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے جبکہ وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی تھی۔ علامہ اقبال نے اس طرح کے بہت سے اشعار کہے ہیں جس سے وہ نوجوانوں کے اندر خودی، اسلامی فکر اور وسعت نظر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں میں انسانی روح بیدار کرنے والے مفکرِ اسلام، شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ملک بھر سمیت دنیا بھر میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور دعوت عمل دی۔ مفکر پاکستان نے شاہین کا تصور اور خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ فرقہ واریت، نظریاتی انتہا پسندی اور نئے اجتماعی گروہوں کی تشکیل جیسے معاملات پر اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر تھے
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر تھے

علامہ اقبال کی وفات کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقریری اور تحریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' اور 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے ہیں جب کہ 'شکوہ اور جواب شکوہ' جیسی ان کی نظموں نے خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعوں میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔

علامہ محمد اقبال کی ابتدائی تعلیم: علامہ محمد اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور پھر لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے 1899 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ علامہ اقبال 1905 میں برطانیہ چلے گئے جہاں پہلے انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا اور پھر معروف تعلیمی ادارے لنکنزاِن میں وکالت کی تعلیم لینا شروع کردی بعد ازاں بعد وہ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے انھوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران شاعری بھی جاری رکھی۔ وطن واپسی کے بعد آپ وکالت کے پیشے سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوئے، علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی سے ہوچکا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں مگر وہ پاکستان کی صورت میں اپنے خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھلتا نہ دیکھ سکے اور 21 اپریل 1938 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

علامہ محمد اقبال کی شاعری: اردو اور فارسی میں شاعری علامہ اقبال کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ انہوں نے پاکستان کا تصور پیش کر کے اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی امید پیدا کی۔ مسلمانان ہند کے لیے الگ وطن کا خواب دیکھنے والے اقبال قیامِ پاکستان سے پہلے ہی چل بسے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 1938 کو ہوا۔ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال حکیم الامت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے فکر و فلسفہ کے ذریعہ امت واحدہ کی نبوی تعلیم کو اجاگر کیا۔ امت مسلمہ کے زوال میں باہمی تقسیم اور انتشار ہی مرکزی کردار ہے۔ آج بھی اگر امت اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ ایک کتاب جس کا نام قرآن مجید ہے اس پر جمع ہوجائیں۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بطورِ سیاستداں: بحیثیت سیاستداں ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

مسلمانوں کے لیے اسلامی ملک کا خواب علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزاد ریاست کے خیال کو جنم دیا تھا۔ ان کے الفاظ میں یہ طاقت تھی کہ انہوں نے امّت مسلمہ کو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور آزادی کے لیے قدم آگے بڑھانے کی ترغیب دی۔ علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جداگانہ قومیت کا احساس اُجاگر کیا اور اپنی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ اُن کے افکار اور سوچ نے اُمید کا وہ چراغ روشن کیا جس نے نا صرف منزل بلکہ راستے کی بھی نشاندہی کی۔ ان کے الفاظ میں قومِ مسلم میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک الگ ہی جوش تھا۔ وہ قومِ مسلم میں انقلاب اور اسلامی روح پھونکنے کے لیے بڑے بے چین رہتے تھے۔ یہ شعر ان کے ذہن کی مکمل ترجمانی کرتا ہے:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

علامہ محمد اقبال کے کلام میں اتحاد امت کا درس: علامہ اقبال کا کلام اتحاد امت کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے شاعری کے ذریعے قوم کی تربیت کی اور انہیں خود آگاہی کا درس دیا۔ آج کل قومِ مسلم انتشار کا شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اور یہ بہترین وقت ہے کہ نوجوان حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی فکر کا مطالعہ کریں۔ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ خودی غلامی کی ہر شکل سے نجات کا نسخہِ کیمیا ہے۔ انہوں نے کہا۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ محمد اقبال کے تصورات و نظریات: انہوں نے تصورات اور نظریات کے ذریعہ ایسا کام کیا جو برسوں تک یاد رکھا جائے گا اور اس کا فائدہ مسلم قوم کو صدیوں تک ملتا رہے گا۔ ان کے انتہائی مشہور تصورات و نظریات درج ذیل ہیں۔

  1. خودی
  2. عقل و عشق
  3. مردِ مومن
  4. وطنیت و قومیت
  5. اقبال کا تصورِ تعلیم
  6. اقبال کا تصورِ عورت
  7. اقبال اور مغربی تہذیب
  8. اقبال کا تصورِ ابلیس
  9. اقبال اور عشقِ رسول

علامہ محمد اقبال کی وفات

علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق 20 صفر المصفر 1357ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث لاہور میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ امت مسلمہ کے لیے ان کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں نا صرف بھارت و پاکستان بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں ان کے نام سے شاہراہیں موسوم کی گئی ہیں۔ ان کو لاہور ہی میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ یاد رہے کہ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے 21 اپریل سنہ 1938 کو لاہور میں وفات پائی تھی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں موجود پیغام نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحرک اور فعال بنایا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس دنیا سے رحلت کیے ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے لیکن ان کی نظریاتی ہمہ گیریت کا اعتراف گزرتے وقت کے ساتھ مزید بڑھتا ہی جارہا ہے۔

Last Updated : Apr 21, 2022, 3:44 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.