دبئی میں بھارت اور پاکستان کے مابین ہوئے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح ہوئی تھی جس پر آگرہ کے ایک نجی انجینیئرنگ کالج میں زیر تعلیم تین کشمیری طلبا پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے بازی کی اور واٹس اپ اسٹیٹس لگایا۔ WhatsApp status in support of Pakistan
جس پر دائیں بازو کی سخت گیر ہندو تنظیموں کے اراکین نے آگرہ کے جگدیش پورہ تھانہ میں کشمیری طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا تھا جس کے بعد اتر پردیش کی آگرہ پولیس نے تینوں کشمیری طلبہ کو گرفتار کر لیا تھا اور ان کو جیل بھیج دیا۔ three Kashmiri students arrested in Agra
ان تینوں کشمیری طلباء نے اپنے کیس کی سماعت متھورا عدالت میں منتقل کرنے کی ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی اور ساتھ ہی ہائی کورٹ میں ضمانت کی بھی اپیل کی ہے۔
کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ آگرہ کی ضلعی عدالت میں وکلاء نے ہمارا کیس لڑنے سے انکار کیا اس وجہ سے کیس کو متھورا عدالت میں منتقل کرنے کی اپیل کی ہے۔
آگرہ کے جگدیش پورہ تھانہ کے تفتیشی پولیس اہلکار پروین کمار نے یوپی حکومت کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے پاکستان کی جیت پر نعرے بازی کرنے والے تینوں کشمیری طلبا پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت طلب کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے پروین کمار سے فون کے ذریعے رابطے کی کوشش کی اور بات چیت کی تو انہوں نے کسی بھی طرح کی تفصیلات دینے سے انکار کیا اور کہا کہ کرائم کا معاملہ ہے اور کرائم کے حوالے سے کوئی بھی تفصیل نہیں دی جاتی ہے تاہم میڈیا اطلاعات کے مطابق انہوں نے اتر پردیش حکومت سے ان طلباء پر سڈیشن چارج لگانے کی اجازت طلب کی ہے۔ اس کے ساتھ آگے کی کارروائی کی جائے۔ Permission sought for sedition charges against three Kashmiri students
یہ بھی پڑھیں: 'اتر پردیش حکومت بچوں کو معاف کرکے انہیں رہا کردے'
واضح رہے کہ انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ دفعہ 124-اے (سڈیشن) 153-اے (مختلف گروپ کے درمیاں دشمنی برپا کرنا ) 505(1) بی اس کے علاوہ دفعہ 66-ایف کے تحت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔