ETV Bharat / technology

مصنوعی ذہانت (AI) کیا ہے؟ اے آئی کیسے کام کرتا ہے؟ جانئے اے آئی کی تاریخ و مستقبل - What is AI - WHAT IS AI

اگر ابھی، آپ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی شکلوں پر غور کریں گے، تو آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ اے آئی ہماری زندگی کے ہر پہلو میں کتنی گہرائی سے داخل ہو چکا ہے۔ آپ اپنا پسندیدہ گانا چلانے کے لیے Alexa کو حکم دے رہے ہیں۔ اپنے موبائل فون میں موجود اے آئی سسٹمز سے الارم سیٹ کروا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ اپنے ایسے بے شمار کام اے آئی کے سپرد کر رہے ہیں جس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI) کیا ہے
مصنوعی ذہانت (AI) کیا ہے (File Photo: Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 9, 2024, 7:52 PM IST

حیدرآباد: یہ سنہ 2024 ہے اور فی الحال اے آئی ہماری زندگی میں اس وقت عام ہو چکا ہے۔ اگر چند دہائیوں پہلے کی بات کریں تو یہ صرف ایک سائنس فکشن تھا۔ تو ایسا کیا ہو گیا اور ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے اے آئی کو سائنس فائی کتابوں اور فلموں سے عام لوگوں کی زندگیوں میں داخل کر دیا؟ اس تفصیلی رپورٹ میں اے آئی کی تاریخ، آغاز، اقسام اور اس کے مستقبل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI) کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت میں ذہانت( Intelligence) سے مراد مشینوں کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر باخبر فیصلہ کرنے یا اقدامات کرنے کی صلاحیت ہے۔ انسانوں کو ذہین مخلوق کہا جاتا ہے کیونکہ ہم اپنے آس پاس سے معلومات کو جمع کر کے آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔

انسانی دماغ میں سیکھنے، معلومات کے اربوں بٹس کو ہر سیکنڈ میں پروسیس کرنے، مسائل کو حل کرنے، منطقی استدلال وغیرہ استعمال کرنے کی منفرد صلاحیت ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت میں، اس ذہانت کو مشینوں کے ذریعے نقل کیا جاتا ہے۔ انہیں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور پھر انسانی ذہانت کی نمائش کے لیے پروگرام بنایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے پر جب ایک مشین اپنے طور پر اقدامات کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کو عقلی بنا سکتی ہے تو ظاہر ہے اسے ذہین سمجھا جائے گا۔

مختصر طور پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ، اے آئی پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، فیصلے لینے جیسے وہ تمام کام انجام دے سکتا ہے جسے کمپیوٹر سسٹم سے حل کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI) کے چھ ڈومینز ہیں، جس میں مشین لرننگ، ڈیپ لرننگ، روبوٹکس، ایکسپرٹ سسٹم، مبہم منطق (Fuzzy Logic)، نیچرل لینگویج پروسیسنگ شامل ہیں۔

اے آئی کی تاریخ اور موجودہ شکل:

مصنوعی ذہانت کی تاریخ:

رومیوں اور یونانیوں کے افسانوں میں مشینی مردوں کا بے شمار ذکر ملتا ہے، جسے جدید دور کا روبوٹ کہا جا سکتا ہے۔ یونانی افسانوں میں ایک ایسا ہی مشہور نام تالوس ہے۔ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ، تالوس ایک بڑا کانسے کا آٹومیٹن تھا جو یونانی شہر یوروپا کو قزاقوں اور باہری حملہ آوروں کے حملوں سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان افسانوں سے آگے بڑھیں تو ہماری فلمیں اور کتابیں ایسی مشینوں سے جڑی ہوئی ہیں، جو آزادانہ طور پر سوچتی ہیں۔ ان چیزوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ، انسانوں کو طویل عرصے سے اپنے ذہن کے ساتھ انسان نما اشیاء کا خیال آتا رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کا آغاز اور ترقی:

صدیوں سے، فلسفیوں نے انسانی دماغ کے سوچنے کے عمل کو ایک 'علامتی نظام' کے طور پر سوچا ہے۔ چاہے وہ ایک خلا کے مشن پر ہوں یا دیگر اسپیس سے آئے ایلئنس سے لڑ رہے ہوں، انسانوں کے روبوٹک ساتھی سائنس فائی پاپ کلچر کا مرکز رہے ہیں۔ ہالی ووڈ کی میٹرکس اور مین ان بلاک جیسی فلموں میں اس چیز کو اچھی طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے دائرے میں حقیقی ترقی 1956 میں شروع ہوئی جب مصنوعی ذہانت کے شعبے کو باضابطہ طور پر قائم کیا گیا تھا۔

نظریاتی کمپیوٹر سائنس کے موجد کے طور پر اپنی پہچان بنانے والے برطانوی ریاضی کے ماہر ایلن ٹورنگ نے ایک تجویز پیش کی جو اے آئی کی بنیاد بن گئی۔ تجویز سادہ تھی، جس میں انسانی دماغ کی طرح، مشینیں معلومات کا استعمال مسائل کو حل کرنے اور معلومات کے دیئے گئے سیٹ کی بنیاد پر انتخاب اور فیصلے کیوں نہیں کر سکتیں؟

1950 کی دہائی کے ٹورنگ کے ایک مقالے میں ایسی ذہین مشینیں بنانے کے بارے میں لکھا گیا جو فیصلے کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کی ذہانت کو کیسے جانچا جا سکتا ہے۔

تاہم، اس مقالے کے خیالات فوری طور پر سامنے نہیں آئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ، کسی بھی مشین کو ذہین بننے کے لیے، اسے کمانڈز کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اور یہ 1950 کی دہائی میں ممکن نہیں تھا۔

اس کے چند سال بعد مصنوعی ذہانت کی اصطلاح باضابطہ طور پر ڈارٹ ماؤتھ کالج میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جان میک کارتھی نامی کمپیوٹر سائنس دان نے وضع کی، جنھیں اے آئی کا موجد کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں دو ماہ تک دس افراد کی تعلیم کی تجویز پیش کی گئی۔

میکارتھی نے تجویز پیش کی کہ اے آئی کو سمجھنے کے لیے مطالعہ یہ دریافت کرنے پر کام کرے گا کہ، مشینوں کو زبانیں استعمال کرنے، تجریدات اور تصورات بنانے، انسانوں کے لیے مختص قسم کے مسائل کو حل کرنے، اور خود کو بہتر بنانے کا طریقہ شامل ہو۔

علمی سائنس دانوں کی کمیونٹی مصنوعی ذہانت کے مستقبل کو لے کر پرامید تھی۔

سنہ 2000 یعنی 21ویں صدی کے آغاز میں، ہونڈا کا اسیمو روبوٹ منظر عام پر آیا جوانسانوں کی طرح کام کرتا تھا، ہوٹلوں میں گاہک تک ٹرے پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ اسی سال، کسمٹ نامی روبوٹ ایجاد ہوا جس میں انسانی جذبات کو سمجھنے اور ان کی نقل کرنے کی صلاحیت تھی۔

2014 میں منظر پوری طرح بدل گیا جب گوگل کی بغیر ڈرائیور والی کار نے خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے امتحان پاس کیا۔ 2016 میں انسان نما صوفیا روبوٹ سامنے آیا جو کسی ملک کی شہریت حاصل کرنے والا پہلا روبوٹ بن گیا۔

مصنوعی ذہانت کی اقسام:

مصنوعی ذہانت کی چار اقسام ہیں، جو کہ مصنوعی ذہانت سسٹمز کی فعالیت پر مبنی ہیں، ان میں سب سے پہلا

1- رد عمل والی مشینیں: رد عمل والی مشینوں میں محدود صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ مشینیں پچھلے کاموں سے سیکھ نہیں سکتیں جو انہوں نے انجام دی تھیں۔ کام کرتے وقت، رد عمل والی مشینیں صرف اس ڈیٹا کو مدنظر رکھتی ہیں جو اس وقت ان کے پاس ہے۔

2- محدود میموری: محدود میموری مشینیں صرف رد عمل والی مشینوں کا ایک اپ گریڈ ورژن ہیں۔ یہ مشینیں نئے فیصلے کرتے وقت ماضی کے ڈیٹا کو مدنظر رکھ سکتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، محدود میموری مشینیں ماضی کے ڈیٹا سے سیکھ سکتی ہیں۔

3- تھیوری آف مائنڈ: اس قسم کی اے آئی ابھی تک ایک نظریاتی تصور ہے۔ تھیوری آف مائنڈ اے آئی کا فوکس انسانی خیالات، یقین کے نظام، ضروریات، سوچنے کے عمل وغیرہ کو سمجھنے پر ہو گا۔ یہ اے آئی مشینوں کو انسانوں کے برتاؤ، عمل اور جذبات کے بارے میں گہرائی سے سمجھنے میں مدد کرے گا۔

4- خود آگاہی: اس قسم کی مصنوعی ذہانت دور دور سے وجود کے قریب نہیں ہے۔ اس میں مصنوعی ذہین انسانوں کا اپنا ایک شعور ہوگا۔ انسانوں کی طرح ان کے بھی اپنے عقائد، نظریات اور جذبات ہوں گے۔ اس قسم کی اے آئی کو نسل انسانی کے لیے بھی بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اے آئی کا استعمال:

مصنوعی ذہانت کا ہر ممکنہ شعبے میں بڑے پیمانے پر استعمال ہے۔ اس میں بینکنگ، سیفٹی، میڈیسن اور انجینئرنگ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔

1- طب: طب کے میدان میں اے آئی نے تشخیص اور علاج کو آسان اور درست بنا دیا ہے۔ اس سے مزید جانیں بچانے میں مدد ملتی ہے۔ طب کے میدان میں اے آئی کا استعمال ادویات میں مریضوں کی نگرانی، صحیح علاج کا انتخاب، نتائج کا تجزیہ کرنے، ڈیٹا اکٹھا کرنے، علاج کے طریقوں کو اخذ کرنے کے لیے رپورٹس مرتب کرنے وغیرہ کے لیے کیا جاتا ہے۔

2- بینکنگ: اب بینکنگ بھی آن لائن ہے، اس لیے دھوکہ دہی کی ادائیگیوں، منی لانڈرنگ وغیرہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت بینکوں کو رسک اسیسمنٹ، منی لانڈرنگ کو روکنے، کے وائی سی چیک کرنے اور ادائیگی کے کسی بھی فراڈ کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔

3- سائبرسیکیوریٹی: ڈیجیٹلائزیشن کے بعد سے، بڑی اور چھوٹی کارپوریشنوں سے لے کر حکومتوں تک، ہر ایک کے پاس اپنا حساس ڈیٹا ڈیجیٹل فارمیٹ میں محفوظ ہے۔ اگرچہ اس کے بڑے فوائد ہیں، لیکن یہ حساس ڈیٹا کو سائبر حملوں اور چوری کا شکار بھی بناتا ہے۔ اے آئی سسٹمز معمولی سی بھی بے ضابطگی کا پتہ لگاسکتے ہیں اور حملہ آوروں کو حساس ڈیٹا چوری کرنے یا ڈسٹرائے کرنے سے روک سکتے ہیں۔

4- ورچوئل اسسٹنٹس: یہ عام لوگوں کے گھروں میں پائے جانے والے سب سے عام اے آئی ہیں۔ ورچوئل اسسٹنٹس جیسے الیکسا آواز کی شناخت کا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ آپ انہیں 'گانا بجانے یا الارم یا کسی چیز سے متعلق جانکاری دینے کا حکم دے سکتے ہیں جس وہ عمل کریں گے۔

اے آئی کا مستقبل:

2018 میں، معروف وینچر کیپیٹلسٹ ڈاکٹر کائی فو لی نے اے آئی سے متعلق پیشین گوئی کی تھی، کہ اے آئی انسانی تاریخ میں بجلی جیسی ایجاد سے زیادہ کسی بھی چیز سے زیادہ دنیا کو بدلنے والا ہے۔ آج دیکھیں تو یہ واقعی سچ ثابت ہوا ہے۔

اگر ہم ابھی اپنے اردگرد نظر ڈالیں، تمام ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT)، مشین لرننگ اور روبوٹکس تک، سب کچھ مصنوعی ذہانت سے چلائے جا رہے ہیں۔ مستقبل میں، ہم اے آئی کے دائرے میں درج ذیل پیش رفت دیکھ سکتے ہیں۔

گوگل اور ٹیسلا کی سیلف ڈرائیونگ کاروں کے علاوہ عام جگہوں جیسے ریستوراں اور ہوٹلوں میں روبوٹ کام کریں گے۔ روبوٹ ہمارے گھروں اور دفاتر میں رپورٹس کی تیاری، آلات اور گیجٹس کو کنٹرول کرنے جیسے کام انجام دے رہے ہیں۔ انسانی جان کے لیے خطرہ بننے والے کام جیسے بم کو ناکارہ بنانا، روبوٹ کے ذریعے کیا جائے گا۔ اگر ہم اپنے مستقبل پر اے آئی کے اثرات کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہمارے تخیل کی کوئی حد نہیں ہے۔

اے آئی میں مہارت حاصل کرنا فائدہ مند ہے:

انسانی مستقبل بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت پر منحصر ہونے جا رہا ہے اس لئے اس شعبے میں سرٹیفیکیشن حاصل کرنا ایک درست سوچ ثابت ہو گی۔ ابھی سے کئی ادارے اے آئی سے متعلق کورس کا آغاز کر چکے ہیں، جس میں آن لائن اور آف لائن کورسیز شامل ہیں۔ ایسے میں طلباء کو اپنی اسکولی تعلیم جاری رکھتے ہوئے اے آئی میں مہارت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں:

حیدرآباد: یہ سنہ 2024 ہے اور فی الحال اے آئی ہماری زندگی میں اس وقت عام ہو چکا ہے۔ اگر چند دہائیوں پہلے کی بات کریں تو یہ صرف ایک سائنس فکشن تھا۔ تو ایسا کیا ہو گیا اور ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے اے آئی کو سائنس فائی کتابوں اور فلموں سے عام لوگوں کی زندگیوں میں داخل کر دیا؟ اس تفصیلی رپورٹ میں اے آئی کی تاریخ، آغاز، اقسام اور اس کے مستقبل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI) کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت میں ذہانت( Intelligence) سے مراد مشینوں کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر باخبر فیصلہ کرنے یا اقدامات کرنے کی صلاحیت ہے۔ انسانوں کو ذہین مخلوق کہا جاتا ہے کیونکہ ہم اپنے آس پاس سے معلومات کو جمع کر کے آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔

انسانی دماغ میں سیکھنے، معلومات کے اربوں بٹس کو ہر سیکنڈ میں پروسیس کرنے، مسائل کو حل کرنے، منطقی استدلال وغیرہ استعمال کرنے کی منفرد صلاحیت ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت میں، اس ذہانت کو مشینوں کے ذریعے نقل کیا جاتا ہے۔ انہیں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور پھر انسانی ذہانت کی نمائش کے لیے پروگرام بنایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے پر جب ایک مشین اپنے طور پر اقدامات کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کو عقلی بنا سکتی ہے تو ظاہر ہے اسے ذہین سمجھا جائے گا۔

مختصر طور پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ، اے آئی پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، فیصلے لینے جیسے وہ تمام کام انجام دے سکتا ہے جسے کمپیوٹر سسٹم سے حل کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔

مصنوعی ذہانت (AI) کے چھ ڈومینز ہیں، جس میں مشین لرننگ، ڈیپ لرننگ، روبوٹکس، ایکسپرٹ سسٹم، مبہم منطق (Fuzzy Logic)، نیچرل لینگویج پروسیسنگ شامل ہیں۔

اے آئی کی تاریخ اور موجودہ شکل:

مصنوعی ذہانت کی تاریخ:

رومیوں اور یونانیوں کے افسانوں میں مشینی مردوں کا بے شمار ذکر ملتا ہے، جسے جدید دور کا روبوٹ کہا جا سکتا ہے۔ یونانی افسانوں میں ایک ایسا ہی مشہور نام تالوس ہے۔ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ، تالوس ایک بڑا کانسے کا آٹومیٹن تھا جو یونانی شہر یوروپا کو قزاقوں اور باہری حملہ آوروں کے حملوں سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان افسانوں سے آگے بڑھیں تو ہماری فلمیں اور کتابیں ایسی مشینوں سے جڑی ہوئی ہیں، جو آزادانہ طور پر سوچتی ہیں۔ ان چیزوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ، انسانوں کو طویل عرصے سے اپنے ذہن کے ساتھ انسان نما اشیاء کا خیال آتا رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کا آغاز اور ترقی:

صدیوں سے، فلسفیوں نے انسانی دماغ کے سوچنے کے عمل کو ایک 'علامتی نظام' کے طور پر سوچا ہے۔ چاہے وہ ایک خلا کے مشن پر ہوں یا دیگر اسپیس سے آئے ایلئنس سے لڑ رہے ہوں، انسانوں کے روبوٹک ساتھی سائنس فائی پاپ کلچر کا مرکز رہے ہیں۔ ہالی ووڈ کی میٹرکس اور مین ان بلاک جیسی فلموں میں اس چیز کو اچھی طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے دائرے میں حقیقی ترقی 1956 میں شروع ہوئی جب مصنوعی ذہانت کے شعبے کو باضابطہ طور پر قائم کیا گیا تھا۔

نظریاتی کمپیوٹر سائنس کے موجد کے طور پر اپنی پہچان بنانے والے برطانوی ریاضی کے ماہر ایلن ٹورنگ نے ایک تجویز پیش کی جو اے آئی کی بنیاد بن گئی۔ تجویز سادہ تھی، جس میں انسانی دماغ کی طرح، مشینیں معلومات کا استعمال مسائل کو حل کرنے اور معلومات کے دیئے گئے سیٹ کی بنیاد پر انتخاب اور فیصلے کیوں نہیں کر سکتیں؟

1950 کی دہائی کے ٹورنگ کے ایک مقالے میں ایسی ذہین مشینیں بنانے کے بارے میں لکھا گیا جو فیصلے کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کی ذہانت کو کیسے جانچا جا سکتا ہے۔

تاہم، اس مقالے کے خیالات فوری طور پر سامنے نہیں آئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ، کسی بھی مشین کو ذہین بننے کے لیے، اسے کمانڈز کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اور یہ 1950 کی دہائی میں ممکن نہیں تھا۔

اس کے چند سال بعد مصنوعی ذہانت کی اصطلاح باضابطہ طور پر ڈارٹ ماؤتھ کالج میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جان میک کارتھی نامی کمپیوٹر سائنس دان نے وضع کی، جنھیں اے آئی کا موجد کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں دو ماہ تک دس افراد کی تعلیم کی تجویز پیش کی گئی۔

میکارتھی نے تجویز پیش کی کہ اے آئی کو سمجھنے کے لیے مطالعہ یہ دریافت کرنے پر کام کرے گا کہ، مشینوں کو زبانیں استعمال کرنے، تجریدات اور تصورات بنانے، انسانوں کے لیے مختص قسم کے مسائل کو حل کرنے، اور خود کو بہتر بنانے کا طریقہ شامل ہو۔

علمی سائنس دانوں کی کمیونٹی مصنوعی ذہانت کے مستقبل کو لے کر پرامید تھی۔

سنہ 2000 یعنی 21ویں صدی کے آغاز میں، ہونڈا کا اسیمو روبوٹ منظر عام پر آیا جوانسانوں کی طرح کام کرتا تھا، ہوٹلوں میں گاہک تک ٹرے پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ اسی سال، کسمٹ نامی روبوٹ ایجاد ہوا جس میں انسانی جذبات کو سمجھنے اور ان کی نقل کرنے کی صلاحیت تھی۔

2014 میں منظر پوری طرح بدل گیا جب گوگل کی بغیر ڈرائیور والی کار نے خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے امتحان پاس کیا۔ 2016 میں انسان نما صوفیا روبوٹ سامنے آیا جو کسی ملک کی شہریت حاصل کرنے والا پہلا روبوٹ بن گیا۔

مصنوعی ذہانت کی اقسام:

مصنوعی ذہانت کی چار اقسام ہیں، جو کہ مصنوعی ذہانت سسٹمز کی فعالیت پر مبنی ہیں، ان میں سب سے پہلا

1- رد عمل والی مشینیں: رد عمل والی مشینوں میں محدود صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ مشینیں پچھلے کاموں سے سیکھ نہیں سکتیں جو انہوں نے انجام دی تھیں۔ کام کرتے وقت، رد عمل والی مشینیں صرف اس ڈیٹا کو مدنظر رکھتی ہیں جو اس وقت ان کے پاس ہے۔

2- محدود میموری: محدود میموری مشینیں صرف رد عمل والی مشینوں کا ایک اپ گریڈ ورژن ہیں۔ یہ مشینیں نئے فیصلے کرتے وقت ماضی کے ڈیٹا کو مدنظر رکھ سکتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، محدود میموری مشینیں ماضی کے ڈیٹا سے سیکھ سکتی ہیں۔

3- تھیوری آف مائنڈ: اس قسم کی اے آئی ابھی تک ایک نظریاتی تصور ہے۔ تھیوری آف مائنڈ اے آئی کا فوکس انسانی خیالات، یقین کے نظام، ضروریات، سوچنے کے عمل وغیرہ کو سمجھنے پر ہو گا۔ یہ اے آئی مشینوں کو انسانوں کے برتاؤ، عمل اور جذبات کے بارے میں گہرائی سے سمجھنے میں مدد کرے گا۔

4- خود آگاہی: اس قسم کی مصنوعی ذہانت دور دور سے وجود کے قریب نہیں ہے۔ اس میں مصنوعی ذہین انسانوں کا اپنا ایک شعور ہوگا۔ انسانوں کی طرح ان کے بھی اپنے عقائد، نظریات اور جذبات ہوں گے۔ اس قسم کی اے آئی کو نسل انسانی کے لیے بھی بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اے آئی کا استعمال:

مصنوعی ذہانت کا ہر ممکنہ شعبے میں بڑے پیمانے پر استعمال ہے۔ اس میں بینکنگ، سیفٹی، میڈیسن اور انجینئرنگ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔

1- طب: طب کے میدان میں اے آئی نے تشخیص اور علاج کو آسان اور درست بنا دیا ہے۔ اس سے مزید جانیں بچانے میں مدد ملتی ہے۔ طب کے میدان میں اے آئی کا استعمال ادویات میں مریضوں کی نگرانی، صحیح علاج کا انتخاب، نتائج کا تجزیہ کرنے، ڈیٹا اکٹھا کرنے، علاج کے طریقوں کو اخذ کرنے کے لیے رپورٹس مرتب کرنے وغیرہ کے لیے کیا جاتا ہے۔

2- بینکنگ: اب بینکنگ بھی آن لائن ہے، اس لیے دھوکہ دہی کی ادائیگیوں، منی لانڈرنگ وغیرہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت بینکوں کو رسک اسیسمنٹ، منی لانڈرنگ کو روکنے، کے وائی سی چیک کرنے اور ادائیگی کے کسی بھی فراڈ کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔

3- سائبرسیکیوریٹی: ڈیجیٹلائزیشن کے بعد سے، بڑی اور چھوٹی کارپوریشنوں سے لے کر حکومتوں تک، ہر ایک کے پاس اپنا حساس ڈیٹا ڈیجیٹل فارمیٹ میں محفوظ ہے۔ اگرچہ اس کے بڑے فوائد ہیں، لیکن یہ حساس ڈیٹا کو سائبر حملوں اور چوری کا شکار بھی بناتا ہے۔ اے آئی سسٹمز معمولی سی بھی بے ضابطگی کا پتہ لگاسکتے ہیں اور حملہ آوروں کو حساس ڈیٹا چوری کرنے یا ڈسٹرائے کرنے سے روک سکتے ہیں۔

4- ورچوئل اسسٹنٹس: یہ عام لوگوں کے گھروں میں پائے جانے والے سب سے عام اے آئی ہیں۔ ورچوئل اسسٹنٹس جیسے الیکسا آواز کی شناخت کا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ آپ انہیں 'گانا بجانے یا الارم یا کسی چیز سے متعلق جانکاری دینے کا حکم دے سکتے ہیں جس وہ عمل کریں گے۔

اے آئی کا مستقبل:

2018 میں، معروف وینچر کیپیٹلسٹ ڈاکٹر کائی فو لی نے اے آئی سے متعلق پیشین گوئی کی تھی، کہ اے آئی انسانی تاریخ میں بجلی جیسی ایجاد سے زیادہ کسی بھی چیز سے زیادہ دنیا کو بدلنے والا ہے۔ آج دیکھیں تو یہ واقعی سچ ثابت ہوا ہے۔

اگر ہم ابھی اپنے اردگرد نظر ڈالیں، تمام ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT)، مشین لرننگ اور روبوٹکس تک، سب کچھ مصنوعی ذہانت سے چلائے جا رہے ہیں۔ مستقبل میں، ہم اے آئی کے دائرے میں درج ذیل پیش رفت دیکھ سکتے ہیں۔

گوگل اور ٹیسلا کی سیلف ڈرائیونگ کاروں کے علاوہ عام جگہوں جیسے ریستوراں اور ہوٹلوں میں روبوٹ کام کریں گے۔ روبوٹ ہمارے گھروں اور دفاتر میں رپورٹس کی تیاری، آلات اور گیجٹس کو کنٹرول کرنے جیسے کام انجام دے رہے ہیں۔ انسانی جان کے لیے خطرہ بننے والے کام جیسے بم کو ناکارہ بنانا، روبوٹ کے ذریعے کیا جائے گا۔ اگر ہم اپنے مستقبل پر اے آئی کے اثرات کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہمارے تخیل کی کوئی حد نہیں ہے۔

اے آئی میں مہارت حاصل کرنا فائدہ مند ہے:

انسانی مستقبل بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت پر منحصر ہونے جا رہا ہے اس لئے اس شعبے میں سرٹیفیکیشن حاصل کرنا ایک درست سوچ ثابت ہو گی۔ ابھی سے کئی ادارے اے آئی سے متعلق کورس کا آغاز کر چکے ہیں، جس میں آن لائن اور آف لائن کورسیز شامل ہیں۔ ایسے میں طلباء کو اپنی اسکولی تعلیم جاری رکھتے ہوئے اے آئی میں مہارت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.