ETV Bharat / state

یوپی کی مسلم سیاسی جماعتیں حاشیہ پر کیوں، جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے عروج کا دور - MUSLIM POLITICAL PARTIES IN UP

اترپردیش میں مسلمانوں کی 20 سے 25 فیصد آبادی ہونے کے باوجود ریاست میں کوئی مسلم پارٹی ابھی تک اپنے پیر جما نہ سکی، وہیں مخصوص ذات کی بنیاد پر بنی مختلف چھوٹی پارٹیوں نے انتخابات میں بہتر مظاہرہ کر رہی ہیں۔

muslim political parties in up remain on sidelines
یوپی کی مسلم سیاسی جماعتیں حاشیہ پر کیوں (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 25, 2024, 5:04 PM IST

Updated : May 26, 2024, 1:04 PM IST

لکھنئو: اترپردیش میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 20 فیصد مسلم آبادی ہے اور ریاست میں تقریبا 100 سے 150 اسمبلی نشستوں پر مسلم وٹرز فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں جبکہ 20 سے 25 پارلیمانی سیٹوں پر مسلم وٹروں کا خاصا اثر رہتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم سیاسی جماعتیں اب تک یوپی میں اپنے پیر اس طریقے سے نہیں جما سکیں ہیں جیسے کہ مخصوص ذات کی بنیاد پر بننے والی دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں نے اپنے پیر جمائے ہیں۔

اتر پردیش میں تقریباً 8 فیصد ووٹروں کا تعلق یادو برادری سے ہے جو کہ یہاں او بی سی کمیونٹی کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ اسی ذات کی بنیاد پر بننے والی سماجوادی پارٹی، مسلم پلس یادو ووٹروں کی بنیاد پر ملائم سنگھ یادو کو تین بار اور اکھلیش یادو کو ایک بار ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا چکی ہے۔

اس کے علاوہ پسماندہ ہندو طبقہ کے لیے لڑنے والی بہوجن سماج پارٹی بھی یوپی کی ان بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہے جس نے مسلم پلس پسماندہ ہندو ووٹروں کی بنیاد پر ریاست میں اقتدار سنبھال چکی ہے۔ انھیں دو مزکورہ پارٹیوں کو یوپی میں مسلم ووٹرز زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن اپنی کسی بھی جماعت کو اس طرح سے ووٹ نہیں کرتے جیسے کی وہ سپا اور بسپا کو کرتے ہیں۔

یوپی میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں

یوپی کی پہلی مسلم پارٹی (مسلم مجلس پارٹی) کو 4000 ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ مسلم مجلس پارٹی کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے جنگ آزادی میں بھی نمایا کرادار ادا کیے تھے۔ 1968 میں مسلم مجلس پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم ہوئی۔

اس کا مقصد مسلم اقلیتی برادری کو ان کے حقوق دلانا تھا۔ پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد یعنی 1969 میں یوپی میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ مسلم مجلس پارٹی نے دو نشستوں پر الیکشن لڑا تاہم دونوں نشستوں پر پارٹی کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ دونوں نشستوں پر مسلم مجلس پارٹی کو 4000 سے بھی کم ووٹ ملے۔ 1974 میں ڈاکٹر فریدی کی وفات کے ساتھ ہی یہ پارٹی بھی ختم ہو گئی۔

راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامر رشادی
راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامر رشادی (Etv Bharat)

یوپی کی دوسری مسلم پارٹی 33 سال تک الیکشن لڑتی رہی اور صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی۔ غلام محمود بنات والا ایک مسلم لیڈر کے طور پر مقبول ہونے لگے۔ انھوں نے انڈین یونین مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ 1974 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم لیگ نے 54 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ان میں 43 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ صرف ایک سیٹ جیت سکے تھے۔

سال 1995 میں بی ایس پی کی حکومت بی جے پی کی حمایت سے بنی۔ یہ وہ دور تھا جب یوپی کے مسلمانوں کا بی ایس پی میں اعتماد بڑھ گیا تھا۔ مایاوتی کو یوپی کی وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور انہوں نے ڈاکٹر مسعود احمد کو وزیر تعلیم بنایا۔

ڈاکٹر مسعود احمد نے وزیر تعلیم رہتے ہوئے اقلیتی برادری کے لیے بہت کام کیا لیکن کچھ عرصے بعد مایاوتی نے ڈاکٹر مسعود کو کابینہ سے برخاست کر دیا۔ جس کے بعد ڈاکٹر مسعود نے سال 2002 میں نیشنل لوکتانترک پارٹی یعنی این ایل پی کی بنیاد رکھی۔

این ایل پی نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں 130 امیدوار کھڑے کئے۔ مسلمانوں کی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی این ایل پی کے 130 امیدواروں میں سے 126 کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ اس کے بعد 2007 میں ڈاکٹر مسعود احمد نے آر ایل ڈی میں شمولیت اختیار کرلی۔

پیس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایوب سرجن
پیس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایوب سرجن (Etv Bharat)

سال 2001 میں مولانا توقیر رضا نے اتحاد ملت کونسل کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ان کی سیاسی جماعت کو اب تک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ 2012 میں بریلی کے بھوجی پورہ حلقہ اسمبلی سے شہزل اسلام کامیاب ہوئے تھے۔

دہلی کی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے بھی یوپی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے پارٹی بنا کر 2007 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں قسمت آزمائی۔ انہوں نے یوپی کی 54 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ جن میں سے صرف ایک ہی جیت سکا، جب کہ 51 سیٹوں پر ضمانت ضبط ہو گئی۔ اس شرمناک شکست کے بعد احمد بخاری یوپی کی سیاست سے غائب ہو گئے۔

2008 میں بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر کی تحریک چلانے والے مولانا عامر رشادی مدنی نے راشٹریہ علماء کونسل کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی لیکن اس پارٹی نے ابھی تک کسی بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔

سال 2008 میں ڈاکٹر ایوب سرجن، جو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب صدر تھے، نے پیس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں پیس پارٹی نے 208 میں سے صرف 4 سیٹیں جیت سکی تھیں۔ 2017 میں پیس پارٹی نے ایک بار پھر الیکشن لڑا لیکن اس بار ان کا کھاتہ بھی نہ کھل سکا۔

آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین 1926 میں بننے والی پارٹی 2019 میں ملک کی سیاست میں چمکی۔ ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس کو چیلنج کرنے کے لیے پارٹی امیدواروں کو ملک کے مختلف علاقوں سے کھڑا کیا۔

اے آئی ایم آئی ایم نے حیدرآباد میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن دوسری ریاستوں میں پارٹی کی حالت خراب رہی۔ ایم آئی ایم نے سال 2017 میں یوپی میں 38 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا لیکن کہیں بھی جیت نہیں سکی۔ اویسی یوپی اسمبلی انتخابات 2022 کے لیے نئی تیاری کے ساتھ آئے اور انہوں نے 403 میں سے 100 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

مخصوص ذات کی بنیاد پر بننے والی مختلف چھوٹی پارٹیوں کا عروج:

دوسری جانب بھارتی سہیل دیو سماج پارٹی کی بنیاد اوم پرکاش راج بھر نے 2001 میں رکھی۔ 2014 میں بنارس میں مودی کی حمایت کرنے کے بعد موضوع بحث بنے۔ 2017 میں بی جے پی کے ساتھ 4 اسمبلی نشستوں پر اتحاد کیا اور کامیابی حاصل کی اور 2022 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر 6 نشستوں پر جیت درج کی۔

نشاد پارٹی کے سربراہ سنجے نشاد
نشاد پارٹی کے سربراہ سنجے نشاد (Etv Bharat)

اس کے علاوہ نشاد پارٹی کی بنیاد 2016 میں سنجے نشاد نے رکھی، 2022 کی اسمبلی انتخابات میں ان کے 6 امیدواروں نے جیت درج کی جبکہ اس پارٹی سے ایک یوپی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔

وہیں اپنا دل سونے لال انوپریا پٹیل کی پارٹی کی بنیاد 2016 میں رکھی گئی۔ جس کے بعد پارٹی نے دو لوک سبھا کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور 2022 کی اسمبلی انتخابات میں 13 اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ سال 2018 میں رگھوراج پرتاپ عرف راجا بھیا نے جن ستا دل پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2022 کے اسمبلی انتخابات میں 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں

14 میں سے 9 وزیراعظم اترپردیش کی لوک سبھا سیٹوں سے منتخب

لکھنؤ میں نواب کیسے لڑتے تھے الیکشن، جانیں طوائف کے انتخاب لڑنے کی کہانی

اویسی پلوی پٹیل اتحاد کی یوپی میں سات امیداوروں کی فہرست جاری


لکھنئو: اترپردیش میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 20 فیصد مسلم آبادی ہے اور ریاست میں تقریبا 100 سے 150 اسمبلی نشستوں پر مسلم وٹرز فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں جبکہ 20 سے 25 پارلیمانی سیٹوں پر مسلم وٹروں کا خاصا اثر رہتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم سیاسی جماعتیں اب تک یوپی میں اپنے پیر اس طریقے سے نہیں جما سکیں ہیں جیسے کہ مخصوص ذات کی بنیاد پر بننے والی دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں نے اپنے پیر جمائے ہیں۔

اتر پردیش میں تقریباً 8 فیصد ووٹروں کا تعلق یادو برادری سے ہے جو کہ یہاں او بی سی کمیونٹی کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ اسی ذات کی بنیاد پر بننے والی سماجوادی پارٹی، مسلم پلس یادو ووٹروں کی بنیاد پر ملائم سنگھ یادو کو تین بار اور اکھلیش یادو کو ایک بار ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا چکی ہے۔

اس کے علاوہ پسماندہ ہندو طبقہ کے لیے لڑنے والی بہوجن سماج پارٹی بھی یوپی کی ان بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہے جس نے مسلم پلس پسماندہ ہندو ووٹروں کی بنیاد پر ریاست میں اقتدار سنبھال چکی ہے۔ انھیں دو مزکورہ پارٹیوں کو یوپی میں مسلم ووٹرز زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن اپنی کسی بھی جماعت کو اس طرح سے ووٹ نہیں کرتے جیسے کی وہ سپا اور بسپا کو کرتے ہیں۔

یوپی میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں

یوپی کی پہلی مسلم پارٹی (مسلم مجلس پارٹی) کو 4000 ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ مسلم مجلس پارٹی کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے جنگ آزادی میں بھی نمایا کرادار ادا کیے تھے۔ 1968 میں مسلم مجلس پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم ہوئی۔

اس کا مقصد مسلم اقلیتی برادری کو ان کے حقوق دلانا تھا۔ پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد یعنی 1969 میں یوپی میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ مسلم مجلس پارٹی نے دو نشستوں پر الیکشن لڑا تاہم دونوں نشستوں پر پارٹی کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ دونوں نشستوں پر مسلم مجلس پارٹی کو 4000 سے بھی کم ووٹ ملے۔ 1974 میں ڈاکٹر فریدی کی وفات کے ساتھ ہی یہ پارٹی بھی ختم ہو گئی۔

راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامر رشادی
راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامر رشادی (Etv Bharat)

یوپی کی دوسری مسلم پارٹی 33 سال تک الیکشن لڑتی رہی اور صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی۔ غلام محمود بنات والا ایک مسلم لیڈر کے طور پر مقبول ہونے لگے۔ انھوں نے انڈین یونین مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ 1974 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم لیگ نے 54 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ان میں 43 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ صرف ایک سیٹ جیت سکے تھے۔

سال 1995 میں بی ایس پی کی حکومت بی جے پی کی حمایت سے بنی۔ یہ وہ دور تھا جب یوپی کے مسلمانوں کا بی ایس پی میں اعتماد بڑھ گیا تھا۔ مایاوتی کو یوپی کی وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور انہوں نے ڈاکٹر مسعود احمد کو وزیر تعلیم بنایا۔

ڈاکٹر مسعود احمد نے وزیر تعلیم رہتے ہوئے اقلیتی برادری کے لیے بہت کام کیا لیکن کچھ عرصے بعد مایاوتی نے ڈاکٹر مسعود کو کابینہ سے برخاست کر دیا۔ جس کے بعد ڈاکٹر مسعود نے سال 2002 میں نیشنل لوکتانترک پارٹی یعنی این ایل پی کی بنیاد رکھی۔

این ایل پی نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں 130 امیدوار کھڑے کئے۔ مسلمانوں کی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی این ایل پی کے 130 امیدواروں میں سے 126 کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ اس کے بعد 2007 میں ڈاکٹر مسعود احمد نے آر ایل ڈی میں شمولیت اختیار کرلی۔

پیس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایوب سرجن
پیس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایوب سرجن (Etv Bharat)

سال 2001 میں مولانا توقیر رضا نے اتحاد ملت کونسل کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ان کی سیاسی جماعت کو اب تک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ 2012 میں بریلی کے بھوجی پورہ حلقہ اسمبلی سے شہزل اسلام کامیاب ہوئے تھے۔

دہلی کی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے بھی یوپی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے پارٹی بنا کر 2007 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں قسمت آزمائی۔ انہوں نے یوپی کی 54 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ جن میں سے صرف ایک ہی جیت سکا، جب کہ 51 سیٹوں پر ضمانت ضبط ہو گئی۔ اس شرمناک شکست کے بعد احمد بخاری یوپی کی سیاست سے غائب ہو گئے۔

2008 میں بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر کی تحریک چلانے والے مولانا عامر رشادی مدنی نے راشٹریہ علماء کونسل کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی لیکن اس پارٹی نے ابھی تک کسی بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔

سال 2008 میں ڈاکٹر ایوب سرجن، جو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب صدر تھے، نے پیس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں پیس پارٹی نے 208 میں سے صرف 4 سیٹیں جیت سکی تھیں۔ 2017 میں پیس پارٹی نے ایک بار پھر الیکشن لڑا لیکن اس بار ان کا کھاتہ بھی نہ کھل سکا۔

آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین 1926 میں بننے والی پارٹی 2019 میں ملک کی سیاست میں چمکی۔ ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس کو چیلنج کرنے کے لیے پارٹی امیدواروں کو ملک کے مختلف علاقوں سے کھڑا کیا۔

اے آئی ایم آئی ایم نے حیدرآباد میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن دوسری ریاستوں میں پارٹی کی حالت خراب رہی۔ ایم آئی ایم نے سال 2017 میں یوپی میں 38 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا لیکن کہیں بھی جیت نہیں سکی۔ اویسی یوپی اسمبلی انتخابات 2022 کے لیے نئی تیاری کے ساتھ آئے اور انہوں نے 403 میں سے 100 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

مخصوص ذات کی بنیاد پر بننے والی مختلف چھوٹی پارٹیوں کا عروج:

دوسری جانب بھارتی سہیل دیو سماج پارٹی کی بنیاد اوم پرکاش راج بھر نے 2001 میں رکھی۔ 2014 میں بنارس میں مودی کی حمایت کرنے کے بعد موضوع بحث بنے۔ 2017 میں بی جے پی کے ساتھ 4 اسمبلی نشستوں پر اتحاد کیا اور کامیابی حاصل کی اور 2022 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر 6 نشستوں پر جیت درج کی۔

نشاد پارٹی کے سربراہ سنجے نشاد
نشاد پارٹی کے سربراہ سنجے نشاد (Etv Bharat)

اس کے علاوہ نشاد پارٹی کی بنیاد 2016 میں سنجے نشاد نے رکھی، 2022 کی اسمبلی انتخابات میں ان کے 6 امیدواروں نے جیت درج کی جبکہ اس پارٹی سے ایک یوپی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔

وہیں اپنا دل سونے لال انوپریا پٹیل کی پارٹی کی بنیاد 2016 میں رکھی گئی۔ جس کے بعد پارٹی نے دو لوک سبھا کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور 2022 کی اسمبلی انتخابات میں 13 اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ سال 2018 میں رگھوراج پرتاپ عرف راجا بھیا نے جن ستا دل پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2022 کے اسمبلی انتخابات میں 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں

14 میں سے 9 وزیراعظم اترپردیش کی لوک سبھا سیٹوں سے منتخب

لکھنؤ میں نواب کیسے لڑتے تھے الیکشن، جانیں طوائف کے انتخاب لڑنے کی کہانی

اویسی پلوی پٹیل اتحاد کی یوپی میں سات امیداوروں کی فہرست جاری


Last Updated : May 26, 2024, 1:04 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.