گیا: وقف ترمیمی بل 2024 کے تعلق سے مسلمانوں کے ساتھ اب ہندو فرقے کے لوگ بھی ناراضگی ظاہر کر ترمیمی بل میں ہی ترمیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گیا سے بڑی تعداد میں لوگوں نے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی' جے پی سی ' کو اپنے مشورے اور ناراضگی کا اظہار ای میل اور خطوط کے ذریعے کیا ہے۔ وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں اپنے تاثرات کا اظہار کرنے والوں کا ماننا ہے کہ ' وقف ' کا تصور صدیوں پرانی روایت اور ایک خاص فرقے کے مذہبی امور کا بھی حصہ ہے۔ اس میں مداخلت ناقابل برداشت ہر سماج کے انصاف پسند، آئین پسند لوگوں کیلئے ہے۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں اپنے تاثرات پیش کرنے والوں سے بات کی۔ جن میں ایک سماجی رکن دھیرو شرما نے کہا کہ وقف املاک کو بچایا جائے، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ نہیں ہو، اس سے کسی کو پریشانی نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے آباء واجداد کی وقف کردہ املاک کو اپنے ماتحت کرلیں، حکومت کے ماتحت ادارہ ' وقف بورڈ ' کی اگر دیکھ ریکھ ہے تو بورڈ کو وقف املاک کی آمدنی کا سات فیصد دیا جاتا ہے۔ باب دادا نے اگر ' وقف علی الاولاد ' کیا ہے تو آپ کو یہ حق نہیں کہ اس واقف کی منشاء کو درکنار کردیں۔
دھیرو شرما نے حکومت کے ذریعے وقف ترمیمی بل پیش کرنے کی منشاء پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کا ارادہ اور منشاء ہے کہ اس کو سرکار کے ماتحت براہ راست کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ مالکانہ حقوق کا اعلان کریں گے۔ اس سے وقف کا بھلا نہیں ہوگا اور ان کے حق چھینے جائیں گے۔ یہ ہم سب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
جبکہ اس حوالے سے پرویز ڈیشوزا ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہ جو ابھی وقف ترمیمی بل پیش کی گئی ہے دراصل وہ وقف کے اصل مقاصد سے انحراف کی کوشش کی جارہی ہے۔ وقف بورڈ کے ماتحت املاک کی کمیٹی ہوتی ہے اور متولی ہوتے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ کے ذریعے واقف کی منشاء کو پورا کیا جاتا تھا، کیونکہ جس کے مفاد میں وقف کیا گیا ہے اس پر عمل ہی کیا جائے۔ لیکن جب یہ ایک سرکاری ہو جائے اور کلکٹر کے کنٹرول میں ہو تو ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جائے گا جن کے مفاد کے لئے ایک خاص فرقے کے لوگوں نے وقف کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس بل سے بڑا کنفیوژن پیدا ہو گیا ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں ناراضگی اور بے چینی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ناراضگی ہونی بھی چاہیے کیونکہ یہ ان کے حقوق کا براہ راست معاملہ ہے۔ اس بل کو ایکٹ بننے کے بعد واقف کی اصل منشا ختم ہوجائے گی۔ اس لیے ہم سبھی اس کی مخالفت میں ہیں۔
ایڈوکیٹ یحیی نے کہا کہ واقف کا جو مقصد تھا کہ یہ پراپرٹی جو وقف کیا ہے۔ اس سے غریب، بے سہارا، یتیموں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود ہو، ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام ہو لیکن اس بل کے ذریعے نا صرف اس مقاصد کو فوت کرنے کی کوشش ہے بلکہ ایک کوشش اور ہے کہ اس میں دوسرے لوگوں کو شامل کر فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو ختم کیا جائے، اس بل سے وقف کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ براہ راست نقصان ہوگا۔
وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں اپنے تاثرات کا اظہار کرنے والوں کا یہ ضرور ماننا ہے کہ حکومت وقف بورڈ میں اصلاح کرے، صاف نیت کے ساتھ وقف املاک کی ترقی اور اسکے فروغ کے لیے منصوبہ بنائے، قبضے سے آزاد کیا جائے اور قانون میں یہ کیا جائے کہ وقف کی ہوئی املاک کو خرد برد کرنے والوں پر سخت کاروائی ہو، کلکٹر کو اختیار ملنے پر قابضین کو کلین چیٹ دینے کی بات عام ہوجائے گی۔ اس لئے وقف بل کو واپس لینا چاہیے۔
دھیرو شرما نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں جے پی سی اور مرکزی حکومت کو بڑے پیمانے پر اپنی ناراضگی اور مشورے کے تعلق سے ای میل کیا جائے، جسکی زمین ہے اس کے ماتحت ہی ہو، ہاں یہ کہ حکومت وقف املاک کا سروے کرائے، کاغذات کی جانچ کرا کر درست کرے لیکن یہ نہیں آپ کسی کا حق چھین لیں، انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ لوگ بلا تفریق اپنا رد عمل پیش کریں تاکہ انصاف ہو۔