علیگڑھ : اترپردیش میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ رابطہ عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ”انٹر ڈسپلینری پس منظر میں تدریس کے طریقے اور سماجی و لسانی تنوع کی معنویت“ کا آج آغاز ہوا جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں شمولیت، پائیداری اور سماجی انصاف کو فروغ دینا ہے۔ شعبہ انگریزی کی جانب سے حالیہ دنوں میں منعقد کی جانے والی یہ چھٹی کانفرنس ہے۔
افتتاحی تقریب کی مہمان اعزازی پروفیسر شوبھا ستیہ ناتھ، سابق پروفیسر، شعبہ لسانیات، دہلی یونیورسٹی نے سماجی لسانیات کے مختلف مضامین جیسے کہ اسپیچ کمیونٹیز، زبان کی مختلف اقسام اور گرامر کے امور پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی لسانیات، روزمرہ کی بات چیت میں مقامی زبان کے طور پر کام کرتی ہے۔ پروفیسر شوبھا نے کہا کہ کانفرنس کا موضوع صرف انگریزی زبان کی تدریس پر نہیں بلکہ ترسیل و ابلاغ پر زور دیتا ہے۔
اپنے خطبہ استقبالیہ میں پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے شعبہ انگریزی کی تاریخی وراثت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ انگریزی زبان کی تدریس کے پروگرام کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شعبہ میں زبان کی تدریس کا آغاز پروفیسر املیندو بوس نے 1950 کی دہائی میں کیا تھا۔پھر بدرالدین طیب جی کی وائس چانسلری کے دور میں برٹش کونسل کے تعاون سے غیرملکی اسکالرز اور ماہرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ پروفیسر ایس رضوان حسین نے نوے کی دہائی میں ای ایل ٹی کو اپنایا۔ پروفیسر صدیقی نے شعبہ کی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے کانفرنس کے موضوع پر روشنی ڈالی۔
کانفرنس کے کنوینر پروفیسر راشد نہال نے کانفرنس کے موضوع اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ توصیف الرحمن، ڈائریکٹر، سٹیپنگ کلاؤڈ کنسلٹنگ پرائیویٹ لمیٹڈ نے سیکھنے کے تین مراحل کی وضاحت کی اور ٹکنالوجی کو معقول طریقہ سے استعمال کرنے کی وکالت کی۔ انہوں نے موبائل ایپلی کیشن ”اردوفار آل“ کی لانچنگ کا بھی ذکر کیا۔ پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے صدر شعبہ کو بین الاقوامی اہمیت کے موضوع پر ایک اور کانفرنس کے انعقاد کے لیے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی ادبی علوم کے بغیر ادھوری ہے۔ انھوں نے ٹرانسلیشن اسٹڈیز کی اہمیت واضح کی۔
کلیدی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر سریش کناگراجہ، ایڈون ایرل اسپارکس پروفیسر، شعبہ اطلاقی لسانیات و انگریزی، پین اسٹیٹ یونیورسٹی،امریکہ نے زبان کی تدریس اور لرننگ کے سلسلہ میں اپنے وسیع تجربات بیان کئے۔
اے یم یو میں تدریس کے طریقے اور سماجی و لسانی تنوع کے موضوع پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس - conference on teaching methods
Conference on teaching methods علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام آئی سی ایس ایس آر، نئی دہلی کے تعاون سے تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ”انٹر ڈسپلینری پس منظر میں تدریس کے طریقے اور سماجی و لسانی تنوع کی معنویت“ کا آج آغاز ہوا۔
Published : May 14, 2024, 10:44 PM IST
علیگڑھ : اترپردیش میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ رابطہ عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ”انٹر ڈسپلینری پس منظر میں تدریس کے طریقے اور سماجی و لسانی تنوع کی معنویت“ کا آج آغاز ہوا جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں شمولیت، پائیداری اور سماجی انصاف کو فروغ دینا ہے۔ شعبہ انگریزی کی جانب سے حالیہ دنوں میں منعقد کی جانے والی یہ چھٹی کانفرنس ہے۔
افتتاحی تقریب کی مہمان اعزازی پروفیسر شوبھا ستیہ ناتھ، سابق پروفیسر، شعبہ لسانیات، دہلی یونیورسٹی نے سماجی لسانیات کے مختلف مضامین جیسے کہ اسپیچ کمیونٹیز، زبان کی مختلف اقسام اور گرامر کے امور پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی لسانیات، روزمرہ کی بات چیت میں مقامی زبان کے طور پر کام کرتی ہے۔ پروفیسر شوبھا نے کہا کہ کانفرنس کا موضوع صرف انگریزی زبان کی تدریس پر نہیں بلکہ ترسیل و ابلاغ پر زور دیتا ہے۔
اپنے خطبہ استقبالیہ میں پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے شعبہ انگریزی کی تاریخی وراثت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ انگریزی زبان کی تدریس کے پروگرام کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شعبہ میں زبان کی تدریس کا آغاز پروفیسر املیندو بوس نے 1950 کی دہائی میں کیا تھا۔پھر بدرالدین طیب جی کی وائس چانسلری کے دور میں برٹش کونسل کے تعاون سے غیرملکی اسکالرز اور ماہرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ پروفیسر ایس رضوان حسین نے نوے کی دہائی میں ای ایل ٹی کو اپنایا۔ پروفیسر صدیقی نے شعبہ کی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے کانفرنس کے موضوع پر روشنی ڈالی۔
کانفرنس کے کنوینر پروفیسر راشد نہال نے کانفرنس کے موضوع اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ توصیف الرحمن، ڈائریکٹر، سٹیپنگ کلاؤڈ کنسلٹنگ پرائیویٹ لمیٹڈ نے سیکھنے کے تین مراحل کی وضاحت کی اور ٹکنالوجی کو معقول طریقہ سے استعمال کرنے کی وکالت کی۔ انہوں نے موبائل ایپلی کیشن ”اردوفار آل“ کی لانچنگ کا بھی ذکر کیا۔ پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے صدر شعبہ کو بین الاقوامی اہمیت کے موضوع پر ایک اور کانفرنس کے انعقاد کے لیے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی ادبی علوم کے بغیر ادھوری ہے۔ انھوں نے ٹرانسلیشن اسٹڈیز کی اہمیت واضح کی۔
کلیدی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر سریش کناگراجہ، ایڈون ایرل اسپارکس پروفیسر، شعبہ اطلاقی لسانیات و انگریزی، پین اسٹیٹ یونیورسٹی،امریکہ نے زبان کی تدریس اور لرننگ کے سلسلہ میں اپنے وسیع تجربات بیان کئے۔