لکھنو : آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سید صائم مہدی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ مرکزی حکومت ایکٹ میں ترمیم کرنے سے قبل مذہبی رہنماؤں سے بات چیت کرتی اور صلاح و مشورہ لیتی اور جو کچھ بہتری ہو سکتا تھا اس میں کیا جاتا اس سے عوام کا اعتماد بھی بحال ہوتا اور حکومت وقف ایکٹ میں بہتری بھی لا سکتی تھی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو خدشات و گمان ہو رہے ہیں کہ کہیں حکومت ایسی ترمیمات نہ کر دے جس سے وقف کی نوعیت بدل جائے یا وقف کے املاک پر حکومت قابض ہو جائے۔ چونکہ وقف مذہبی املاک ہے لہذا مذہبی رہنماؤں سے بات کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک ان ترمیمات کا کوئی ڈرافٹ سامنے تو نہیں ایا تاہم میرا یہی کہنا ہے کہ حکومت ایسی ترمیمات ہرگز نہ کرے جس سے وقف املاک پر اثر پڑے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پہلے دن سے ہی حکومت سے گزارش کی تھی کہ اوقاف کے متعلق اگر ایکٹ میں کسی بھی قسم کی ترمیم حکومت کرنا چاہ رہی ہے تو سب سے پہلے مذہبی علماء سماجی کارکنان اوقاف سے متعلق رضا کاروں سے بات چیت کریں اور جو بہتر ترمیمات ہو سکتا ہے اسے انجام دینے میں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن مرکزی حکومت کے رویے کو پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے خاطر خواہ اطمینان بخش نہیں رہا ہے یہی وجہ ہے کہ وقف ایکٹ کی ترمیم کے حوالے سے مسلم طبقے میں بے چینی ہے۔
واضح رہے کہ وقف ایکٹ 1995 میں کئی بار ترمیمات اس سے قبل ہو چکی ہیں ایکٹ کو بہتر بنانے کے لیے حکومت نے ترمیم بھی کیا ہے اب مودی کی قیادت والی حکومت اس ایکٹ میں بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے جس سے لوگوں میں شدید بے چینی ہے حالانکہ ابھی واضح نہیں ہے کہ حکومت کی منشا کیا ہے اور کیا ترمیمات ہوں گے۔