ملک میں پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیاں زور و شور سے چل رہی ہے۔ کئی لیڈران اپنے متنازع بیانات سے سرخیوں کی شان بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ملک کے وزیراعظم نریندر مودی بھی اجلاس میں مسلمانوں کے تعلق سے متنازعہ بیانات گزشتہ کچھ دنوں سے دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلم سماج میں وزیراعظم کے تئیں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔
پچھلے دنوں میں وزیر اعظم کے بیان کے مطابق مسلمان زیادہ بچّے پیدا کرتے ہیں، ہندو خواتین کا منگل ستر خطرے میں ہے، مسلمانوں کو زمینات دے دی جائیں گی، اور مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دینے کی بات کر رہے ہیں۔ اورنگ آباد کی عوام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کہتے ہیں سب کا ساتھ سب کا وکاس لیکن وہ 2014 سے لے کر اب تک صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں،حالیہ دنوں میں وزیراعظم کے بیانات کی وجہ سے غیر ملکی اخبارات میں مودی کومسلم مخالف لکھا جا رہا ہے، لوگوں کا کہنا ہیکہ اس طرح کسی بھی ملک کا وزیراعظم کسی ایک مذہب کے لوگوں کو نشانہ نہیں بنا سکتا۔
مسلم مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی تشہیر اور اجلاس میں صرف نفرت کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی لیے خود وزیر اعظم ایسے متنازعہ بیانات دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں وزیر اعظم نے مسلمانوں کے مخالفت ہی کی ہیں، چاہے وہ تین طلاق ہو یا مسلم خواتین کے لیے حجاب کا مسئلہ وہ صرف ایک مذہب کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں،کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد وزیر اعظم مودی کو کچھ سمجھ نہیں پا رہے ہیں، اس لیے وہ گھبرا گئے ہیں، اسی لیے وہ مسلمانوں کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں، اور ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دو مذاہب میں نفرت پیدا کر رہے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی 400 سے آگے نہیں جائے گی، اگر بی جے پی 400 سے آگے جاتی ہے تو ملک کا آئین خطرے میں پڑ جائے گا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے تین طلاق کس کے لیے بنایا یہ انہیں پتہ نہیں ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہیکہ وزیراعظم نے خواتین کی اچھی تربیت کے لیے کچھ اسکیمات نہیں لائے، لیکن وزیراعظم نے مسلم خواتین کو دی جانے والی اسکالرشپ بند کر دی ہے۔ حالیہ دنوں میں سی اے اے اور این آر سی کے معاملے کو لے کر بھی مرکزی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔