لکھنؤ: غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آج نماز جمعۃ الوداع کے بعد آصفی مسجد میں مجلس علمائے ہند کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ عالمی یوم قدس کی مناسبت سے منعقد ہونے والے اس احتجاج میں مظاہرین نے اسرائیلی جارحیت اور غزہ میں مارے جارہے مظلوموں کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں ایسے بینر اور پلے کارڈ تھے جن میں اسرائیلی ظلم و بربریت کے شکار معصوم بچوں اور عورتوں کو دکھلایا گیا۔ مظاہرین نے 'اسرائیل مردہ باد' کا نعرہ لگاتے ہوئے عرب ملکوں کی بزدلی اور منافقت کی بھی مذمت کی اور ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ اس موقعے پر مظاہرین نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کی تصویر کو نذر آتش کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں آج منایا جا رہا ہے عالمی یوم قدس - RAMADAN 2024
مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہا کہ ہم سب پر فرض ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا ظلم دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے اور نام نہاد امن پسند دنیا خاموش ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کی اکثریت اسرائیلی ظلم کی حمایت کررہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ فلسطینیوں نے بے دریغ قربانیان دی ہیں لیکن انہوں نے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا، یہ درس انہوں نے کربلا سے لیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ جہاں فلسطینیوں کی بہادری، ان کا ایثار اور قربانی تاریخ میں درج ہوگئی ہے۔ وہیں عرب ملکوں کی بزدلی اور خیانت کو بھی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ یہ استعمار کے بدترین غلام ہیں اور اسلام کے سب سے بڑے غدار ہیں۔
مولانا نے کہا کہ ہمارا قومی میڈیا فلسطینی مظلوموں کی حمایت تو کرتا ہے لیکن عرب ملکوں کی بے غیرتی اور خیانت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اب بھی سعودی عرب جیسے خائن ملکوں سے متاثر ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ میڈیا کو عربوں کی منافقت اور غداری نظر نہیں آتی۔ مولانا نے کہا کہ جو ملک جنگ بندی کی بات کررہے ہیں، وہی اسرائیل کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں، ان کا کردار دوغلا ہے اور اسی دوہرے معیار نے دنیا کو بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ آج حزب اللہ سمیت جو لوگ اسرائیل سے لڑرہے ہیں وہ سب کربلا والے ہیں۔ اس میں شیعہ و سنّی ہونا شرط نہیں ہے بلکہ حسینی ہونا شرط ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو خفیہ طور پر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں وہ یزیدی ہیں اور اسرائیل اور استعماری طاقتوں سے لڑرہے ہیں وہ حسینی ہیں۔
مولانا نے دوران تقریر کہا کہ فلسطینیوں نے تنہا اپنے لیے قربانیاں نہیں دی ہیں بلکہ انہوں نے پوری دنیا کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ اگر یہ ہارجاتے تو پوری دنیا میں مسلم اقلیتوں پر ظلم شروع ہوجاتے۔ لیکن ان کی بہادری اور استقامت نے دنیا کو یہ باور کرادیا کہ حسینی سر کٹا سکتے ہیں لیکن ظلم کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے۔ مولانا نے کہ اردن، سعودی عرب سمیت دیگر مسلمان ملک اسرائیل کو اناج، تیل اور جنگ کے دوران رسد بھجوارہے ہیں لیکن فلسطینی بچے بھوکے مررہے ہیں۔ ان مسلمان ملکوں میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ وہ امدادی سامان کی ترسیل کے لیے رفح کراسنگ کو پوری طرح کھلوا سکیں۔ ان کی بے غیرتی اور غداری کی بنیاد پر اسرائیل میں اتنی جرأت پیدا ہوئی ہے کہ اس نے غزہ کو عورتوں اور بچوں کا مقتل بنادیا۔ مولانا نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی ہونا چاہیے اور اسرائیل پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
مولانا نے کہا کہ اسرائیل اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد اور ظالم ہے، جس کا عالمی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ مولانا نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرے اور جنگ بندی میں اپنا کلیدی کردار پیش کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ وزیر اعظم مودی اس سلسلہ میں پیش رفت کریں گے اور مظلوموں کا ساتھ دیں گے۔ نماز جمعۃ الوداع میں نمازیوں کو مسئلۂ فلسطین پر بیدار کرتے ہوئے مولانا حسنین باقری نے کہا کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے اور پوری دنیا اس قبضہ کی تاریخ سے واقف ہے۔ لیکن افسوس دنیا کی منافقت نے غزہ کو جہنم میں تبدیل کردیا۔ آج بیس لاکھ سے زیادہ آبادی پر موت کے بادل منڈلارہے ہیں۔ لیکن دنیا خاموش ہے۔ اگر امریکہ اور اس کی حلیف طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی نہیں کرتیں تو اب تک یہ جنگ فیصل ہوچکی ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ہمیں ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور ظلم کے خلاف لڑنےکا حق حاصل تھا اسی طرح فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کی بازیابی اور قابض اسرائیل سے لڑنے کا حق حاصل ہے۔ مولانا سرتاج حیدر زیدی نے کہا کہ بیت المقدس ہمارا قبلۂ اول ہے جس کی بازیابی کے لیے ہمیں متحد ہوکر احتجاج کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ نے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’یوم قدس‘ منانے کی اپیل کی تھی۔ کیونکہ اس دن تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہیں۔ اگر ہم سب متحد ہوکر فلسطینی مظلوموں کی حمایت اور اسرائیلی ظلم کے خلاف احتجاج کریں گے، تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب اسرائیل نیست و نابود ہوگا اور قدس مسلمانوں کے تصرف میں ہوگا۔
احتجاج میں مولانا مشاہد عالم رضوی، مولانا شباہت حسین رضوی، مولانا مظفر شفیعی، مولانا سلیم عباس زیدی، مولانا سرتاج حیدر زیدی، عادل فراز نقوی اور دیگر علمائے کرام نے شرکت کی۔ احتجاج میں اقوام متحدہ کو پانچ نکاتی میمورنڈم بھی ارسال کیا گیا۔
مطالبات:
1۔ غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت پر فوری کارروائی کی جائے اور اس کے بائیکاٹ کے لیے عالمی رائے ہموار کی جائے۔
2۔ غزہ کے عوام اور خاص طور پر بچے شدید ترین بھکمری کا شکار ہیں، ان تک امدادی سامان کی ترسیل کو ممکن بنایا جائے۔
3۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے جرم میں اسرائیل پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور اس کو جنگی مجرم قرار دیا جائے۔
4۔ غزہ سے اسرائیلی فوجوں کو باہر نکالا جائے اور اس کی باز آبادکاری پر توجہ دی جائے۔
5۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ اس کو مسلمانوں کے سپرد کیا جائے۔