علیگڑھ: ”پروفیسر خورشید الاسلام ایک ذہین نقاد تھے۔ وہ کبھی پرانی باتیں نہیں کہتے تھے۔ ان کے یہاں ہمیشہ نیا پن ہوتا تھا۔ اپنی تنقیدی تحریروں میں انہوں نے جو اقوال زریں قسم کے جملے لکھے ہیں، اس کے لیے بہت زیادہ علم اور ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ معمولی ذہن کا کام نہیں ہے“۔ ان خیالات کا اظہار معروف فکشن رائٹر اور سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے ممتاز نقاد، شاعر، دانشور اور سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر خورشید الاسلام یادگاری جلسہ میں کیا۔
بزم شہریار کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں انہوں نے کہا کہ خورشید الاسلام کی شاعری بالخصوص نظمیں بہت مختلف ہیں، ان کے یہاں تکرار نہیں ہے، آسان زبان میں جو تخلیقیت ہے، اسی میں ان کی انفرادیت مضمر ہے۔ پروفیسر چھتاری نے کہا کہ بڑے بڑے سمیناروں کے مقابلہ میں ان جلسوں کی زیادہ اہمیت ہے، جن میں طلبا اور نئے لکھنے والوں کی شمولیت ہوتی ہے۔ قاری کے فقدان کا مسئلہ بھی حل ہوتا ہے اور ادب کے سلسلہ میں بھی تحریک ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
AMU Department Of Urdu یوم سرسید کی مناسبت سے شعبہ اردو، اے ایم یو میں تقریب کا انعقاد
صدر شعبہ اردو پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی کی سرپرستی میں منعقدہ اس پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے کہا کہ اس بزم کا آغاز 2018 میں ہوا تھا اور اس کا مقصد بی اے کے طلبا کی تخلیقی اور تحریری صلاحیتوں کو مہمیز کرنا ہے۔ اس بزم کے تحت اس سے پہلے سجاد حیدر یلدرم، پروفیسر رشید احمد صدیقی اور پروفیسر آل احمد سرور یادگاری جلسہ کا انعقاد ہو چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام میں بی اے کے طلبا اس شخصیت سے متعلق مضامین و مقالات پڑھتے ہیں اور ان کے سامنے تحریر کا پختہ اور مثالی نمونہ پیش کرنے کے لیے کسی ایک استاد کو بھی زحمت دی جاتی ہے کہ وہ بھی اس شخصیت سے متعلق مضمون پیش کریں۔
پروفیسر خورشید الاسلام کے صاحب زادے، پروفیسر طارق اسلام، سابق صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے والد کے خانگی معاملات و برتاؤ کا ذکر تے ہوئے کئی دلچسپ اور سبق آموز واقعات سنائے۔ انہوں نے پروفیسر خورشید الاسلام کے وسعت مطالعہ، تفہیم، شعر گوئی اور تخلیقی عمل کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ پروگرام میں اساتذہ کی جانب سے ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے’پروفیسر خورشید الاسلام کی مختصر سوانح‘، جب کہ ڈاکٹر سرور ساجد نے ’خورشید الاسلام کی غزلیہ شاعری کے امتیازات‘ موضوع پر مقالہ پڑھا۔
ریان نے خورشید الاسلام کی غزل جب کہ اریب عثمانی نے ان کی نظم پیش کی۔ ابو حذیفہ اور ابو عبیدہ عامر نے مجتبیٰ حسین کا تحریر کردہ خاکہ پیش کیا۔ محمد فردین، حافظ سبحان اور محمد احمد نے خورشید الاسلام کے مضامین سے تنقیدی جملے اور اقوال پیش کیے۔ مصیف الرحمٰن نے ’خورشید الاسلام کی فکشن تنقید‘، اریب عثمانی نے’خورشید الاسلام کی غزل گوئی بہ نوک خار می رقصم کے حوالہ سے‘ اور محمد معراج نے ’خورشید الاسلام کی نثری تحریریں‘موضوع پر مضامین و مقالات پیش کیے۔